ان کا جرم عظیم تھا۔ جس پر وہ مستحق عذاب ہوئے نہ کہ مستحق رحمت۔ ان کی اس نالائقی اور ناقدر شناسی اور ناشکری پر بجائے عذاب کے یہ کرم وعنایت فرمانا کہ ان میں کسی نبی جدید کو بھیج کر یاد دہانی کا سامان فرمایا جائے۔ اس کا لزوم کسی عقلی دلیل سے ثابت نہیں ہوتا۔
مسئلہ کو ایک دوسرے زاویہ سے بھی دیکھئے۔ اگر زیغ وضلال کے وقت کسی نبی کا بھیجنا صفت ربوبیت یا رحمت کا ناگزیر تقاضا ہے یا عقلاً ضروری ہے تو ماننا پڑے گا کہ ہر ایسے زمانہ میں جب کفر وضلال عام ہوگیا ہو کوئی نہ کوئی ضرور آیا ہو۔ بلکہ لازم آئے گا کہ حیات عالم کا کوئی حصہ بھی نبی کے وجود سے خالی نہ رہے۔ اس لئے کہ دنیا کبھی ضلال وگمراہی سے خالی نہیں رہی اور غالباً قیامت تک نہ رہے گی۔ حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ لازم بالکل باطل اور خلاف واقعہ ہے۔ تاریخ عالم بتاتی ہے کہ بعض اوقات صدیوں تک ساری دنیا کفر وضلالت کا ظلمت کدہ بنی رہی ہے اور کسی نبی کی بعثت نہیں ہوئی۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے درمیان چھ صدیوں کا فاصلہ ہے۔ یہ چھ صدیاں ظلم وفساد، کفر وضلال، شروطغیان کے لحاظ سے تاریخ کی پیشانی پر نمایاں داغ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مگر باوجود اس کے ان میں کسی نبی ورسول کی بعثت کا پتہ نہیں چلتا۔
عقل کی حیرانی وآبلہ پائی اسی منزل پر ختم نہیں ہو جاتی۔ اسے اپنی عاجزی کا مکرر اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ جب ہم زمان ومکان کے اعتبار سے مسئلہ بعثت پر غور کرتے ہیں۔ ایک ہی زمانہ ایک ہی جگہ اور ایک ہی قوم میں دو دو نبی مرسل فریضہ تبلیغ وتعلیم ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حضرت موسیٰ، حضرت ہارون علیہم السلام کا زمانہ ایک ہی ہے اور امت بھی ایک۔ حضرت عیسیٰ وحضرت یحییٰ علیہ السلام دونوں کی بعثت ایک ہی دور میں ہوئی ہے اور دونوں کی امت بھی ایک ہی ہے۔ محل تبلیغ وتعلیم کے لحاظ سے بھی ان سب میں وحدت پائی جاتی ہے۔ کیا اس کی کوئی عقلی توجیہ ممکن ہے؟ کیا عقل محض ان خصوصیات کے ساتھ ان سب کی ضرورت بتانے کے لئے کافی ہوسکتی ہے؟ حیرت کی کوئی انتہاء نہیں رہتی۔ جب اس واقعہ کے ساتھ اس حقیقت کو بھی سامنے رکھئے کہ کئی کئی صدیوں تک دنیا نور نبوت سے محروم نظر آتی ہے اور خود اس دور میں بعض وہ قومیں جو تعداد وقومیت کے لحاظ سے بنواسرائیل سے زیادہ تھیں۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے محروم رہیں۔
حاصل یہ ہے کہ اوّل تو عقل محض ایک نبی کے آنے کے بعد کسی دوسرے نبی کی