دین میں فلسفہ کی آمیزش
شیر شیریں میں زہر کے چند قطروں کی آمیزش اسے مہلک اور خطرناک بنادیتی ہے۔ دین میں کسی فلسفہ کی آمیزش بھی اس کے مزاج کو فاسد بنادیتی ہے۔ وہ دین نہیں رہتا بلکہ ایک ایسا فلسفہ بن جاتا ہے۔ جسے دین کا لباس پہنا دیا گیا ہو۔
نبی کریمﷺ کے بعد ایک مدت تک اسلام کی فطری سادگی قائم رہی اور مسلمان عام طور پر اسی طریق فکر پر قائم رہے۔ جس کی تعلیم قرآن مجید اور حدیث نبویﷺ نے دی۔ مگر آہستہ آہستہ عجم سے اختلاط کی وجہ سے صحیح طرز فکر بدلا اور اس کی جگہ فلسفیانہ طریق فکر نے لے لی۔ ایک گروہ تو قرآنی طرز فکر اور نبوی طریق تدبیر پر قائم رہا۔ دوسرے گروہ نے اس راستہ کو چھوڑ کر ارسطو اور افلاطون وغیرہ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی۔ فلسفی عام طور پر کج فہمی اور ژولیدگی فکر کے مہلک مرض میں گرفتار ہوتے ہیں۔ یونانی فلسفی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھے۔ ان کج فہموں کی پیروی کر کے بہت سے اسلام کے نام لیوا بھی اس متعدی بیماری کا شکار ہوگئے اور شکوک وشبہات، عقائد باطلہ اور فہم دین سے تہی دستی میں مبتلا ہوکر راہ حق سے بھٹک گئے۔ یہی وہ جماعتیں ہیں۔ جنہیں ہم اسلام کے فرق باطلہ اور احزاب ضالہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ ان میں باہم شدید اختلافات ہونے کے باوجود اسلامی وفکری طرز فکر اور نبوی وقرآنی طرز تدبر سے بے اعتنائی ومحرومی مشترک نظر آتی ہے۔ ان میں اکثر فرقے ایسے ہیں۔ جن کے طرز استدلال اور عقائد باطلہ کو دیکھ کر ہر صاحب فہم اس نتیجے پر پہنچے گا کہ انہیں یونان، انگلستان، روس، امریکہ یا اور کسی جگہ کے فلسفہ کے سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اسی زہر کا اثر ہے کہ یہ باطل کی تلخی کو شیریں اور حق کی شرینی کو تلخ محسوس کرتے ہیں۔ ان کی گمراہی کے دوسرے اسباب بھی ہیں۔ مثلاً غیروں سے، خصوصاً یہود سے تأثر مگر ان کا فلسفیانہ طرز فکر سب سے زیادہ ان کے لئے گمراہ کن ہے۔
فلسفہ سراب تخیّلات ہے۔ دین، آب حیات، فلسفہ مصنوعات ذہن کو فریب کارانہ طریق سے حقائق کا لباس پہناتا ہے۔ دین، حقائق کو بے نقاب کر کے روشناس کراتا ہے۔ فلسفہ شکوک واوہام کا مجموعہ۔ دین، اذعان ویقین کا مخزن، فلسفہ اضطراب وتشویش کا سرچشمہ۔ دین، اطمینان وسکون کا منبع۔ دونوں کے راستے اور دونوں کی فطرتیں بالکل الگ الگ ہیں۔ ان دونوں کا اختلاط بالکل بے جوڑ اور خلاف فطرت ہے۔ وہ مذہب جو فلسفہ اور دین سے مرکب ہو وہ کسی درجہ میں فلسفہ تو کہا جاسکتا ہے۔ مگر اسے دین کہنا دین کے مفہوم سے مکمل ناواقفیت اور اس پر ظلم کے مرادف ہے۔