ورسوائی کا شکار رہے۔ ایسے ہمت شکن اور صبر آزما حالات میں اس عقیدے کو زندگی کا عام سہارا اور ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑنے کا ذریعہ بنا لینا بالکل طبعی اور نفسیاتی، اصول پر مبنی ہے۔
وہ قومیں جو عزت ووقار کی بلندیوں سے ذلت وادبار کی پستیوں میں پہنچ گئی ہوں۔ اپنی قوت حیات کی تقویت اور حرارت قومی کوبرقرار کے لئے اس قسم کے وہمی عقیدوں کا بطور دوا سہارا لیا کرتی ہیں اور اس طرح کی موہوم امیدوں کے سہارے جیا کرتی ہیں۔
ایسے نبی کا انتظار جو بنو اسرائیل کی ذلت کو عزت، پستی کو رفعت اور غم و اندوہ کو مسرت سے بدل دے۔ ان کی شکستہ اور افسردہ زندگی کا آخری سہارا اور ظلمت یاس میں امید کا چراغ ہے۔ ختم نبوت کا تصور ان کے لئے اجتماعی موت کا پیغام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ برابر ایک نئے نبی کے آنے کے امکان اور سلسلہ نبوت جاری رہنے کی ضرورت پر زور دیتے رہے۔ اسلام سے بے خبر یا ذوق اسلامی سے محروم مسلمان بھی اس پروپیگنڈے سے متأثر ہوئے اور ان کی آواز میں آواز ملانے لگے۔
یہود کے یہ فساد انگیز اثرات امت مسلمہ پر تین طریقوں سے ہوئے۔
۱…
بعض یہود نے منافقانہ طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا اور عقائد باطلہ اختراع کر کے اہل اسلام میں ان کی ترویج کی کوشش کی۔ ان میں وہ عقائد بھی شامل ہیں جن کی زد ختم نبوت پر پڑتی ہے۔ عقیدہ امامت کی ترویج اسی صورت سے ہوئی۔
۲…
اس قسم کا پروپیگنڈہ کیا گیا جس سے ضعیف الایمان اور دین سے ناواقف مسلمان متاثر ہوئے۔ یہ صورت آج بھی جاری ہے۔ امریکہ اس کا خاص مرکز ہے۔ جہاں یہود باوجود صرف چھ فیصدی ہونے کے بہت زیادہ اثر ونفوذ رکھتے ہیں۔
۳…
اختلاط وصحبت کی وجہ سے امت مسلمہ کے ضعیف الایمان اور دین سے ناواقف افراد غیر شعوری طریقہ سے متاثر ہوئے۔ یہ صورت بھی بعض مقامات پر اب تک قائم ہے۔
عجیب بات ہے کہ خود یہود میں بھی جو عقیدہ ختم نبوت کے دشمن ہیں اور اپنی نشاۃ ثانیہ کے لئے کسی اسرائیلی نبی کے منتظر رہتے ہیں۔ متعدد ومدعیان نبوت پیدا ہوتے رہے۱؎ اور ان کے باطل خیالات وافکار کے اثرات سے امت مسلمہ میں بھی یہ فساد پیدا ہوا۔
۱؎ OUR JIVISH HERITAGE مصنفہ RABBI WOLF اور GAIR