امت میں ضعف آنے کے بعد یہ کوشش تیز تر ہوگئی اور یہودیت سے متاثر ہونے والے مدعیان اسلام کو اپنی نبوت کے اعلان یا مدعیان نبوت پر کھلم کھلا ایمان لانے کی جرأت پیدا ہوئی۔
سید الانبیائﷺ اور دین اسلام کی عداوت کے علاوہ خود فریبی بھی یہود کے دلوں میں کسی نئے نبی کا انتظار پیدا کرنے کا ایک قوی سبب ہے۔ اس متن کی شرح یہ ہے۔ یہود مدینہ کے علماء خوب سمجھتے تھے کہ محمد رسول اﷲﷺ وہی نبی ہیں۔ جن کی آمد، آمد کی پیشین گوئی توراۃ میں فرمائی گئی ہے۔
’’الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوباً عندہم فی التورۃ والانجیل (الاعراف:۱۵۷)‘‘ {جو لوگ ان نبی امی کی پیروی کریں گے۔ جنہیں وہ تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔}
پیشین گوئی اس قدر واضح اور علامات ایسے صاف تھے کہ یہود آنحضورﷺ کو بغیر کسی شک وشبہ کے پہچانتے تھے۔
’’یعرفونہ کما یعرفون ابناء ہم (البقرۃ:۱۴۶)‘‘ {یہ لوگ آنحضورﷺ کو اس طرح پہچانتے ہیں۔ جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔}
’’اولم یکفہم آیۃ ان یعلمہ علماء بنی اسرائیل (الشعرائ:۱۹۷)‘‘ {کیا ان کے لئے یہ نشانی کافی نہیں کہ آنحضور کو علماء بنی اسرائیل پہچانتے ہیں۔}
لیکن حسد وعناد، حب جاہ، حب مال نے دیگر امراض نفسانی سے مل کر اس عرفان کو ایمان وایقان کے درجہ تک پہنچنے سے محروم رکھا۔ محرومی کا یہ زخم کوئی معمولی نہ تھا۔ اس کی ٹیس جانگداز اور اس کا صدمہ جانکاہ تھا۔ اند مال کی صورت تو صرف یہ تھی کہ نبی امیﷺ کی شفقت ورحمت کا مرہم اس پر لگایا جاتا۔ جس کے اثر کے لئے دواء ایمان کا پینا شرط اولین تھا۔ یہی وہ چیز تھی جو ان کے نفس مریض پر پہاڑ سے زیادہ گراں تھی۔ اسی حالت میں انہوں نے وہی کیا جو ناسمجھ معالج یا علاج سے گریزاں ناعاقبت اندیش مریض کیا کرتے ہیں۔ یعنی الم جراحت کا علاج صرف وقتی مسکنات ومخدرات سے کردیا جائے۔ خواہ زخم بڑھتے بڑھتے ناسور کی شکل اختیار کرلے اور سمیّت ایک دن ہلاکت تک پہنچادے۔ مگر اپنے نفس کو فریب دیا جائے کہ زخم مند مل ہوگیا۔ تمناؤں اور تخیلات کی باہمی اعانت سے انہوں نے امیدوں کا وہ قصر موہوم تعمیر کیا جس کی ہر منزل