کی ایک عجیب خصوصیت یہ ہے کہ بربناء بغض وعناد کسی شخص یا قوم کو گمراہی وضلال کی دلدل میں پھنسا دینا ان کا محبوب طریقہ ہے۔
’’ودت طائفۃ من اہل الکتب لو یضلونکم (آل عمران:۶۹)‘‘ {اہل کتاب کا ایک گروہ (یہود) پسند کرتا ہے کہ تمہیں گمراہ کردے۔}
موجودہ مسیحیت کی گمراہی بھی اسی مغضوب علیہم قوم کی رہین منت ہے۔ بلکہ پورے وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت جو مسیحیت موجود ہے وہ درحقیقت یہودیت ہی کی ایک شاخ ہے۔ اسلام ورسول اسلام سے عداوت اور نسلی تعصب وعداوت کی بناء پر انہوں نے یہی طریقہ مسلمانوں کے ساتھ اختیار کیا اور مسلمانوں کو جادۂ حق سے ہٹانے کے لئے طرح طرح کی تدبیریں کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔
محمد اسماعیلیﷺ کی بے مثال عظمت، نسلی عصبیت کی بناء پر یہود کی نظروں میں خار کی طرح کھٹکتی رہتی تھی۔ حسد کی آگ نے ان کے سینوں کو آتش کدہ نمرود بنادیا تھا۔ جس میں وہ فرزند خلیل اﷲ کی عظمت کو جلانا چاہتے تھے۔ انہیں یہ غم کھائے جارہا تھا کہ نبی آخرالزمان نے تشریف لاکر ہمیشہ کے لئے بنواسرائیل کو شرف نبوت سے محروم کر دیا۔ حالانکہ سیادت ونبی زادگی کا غرور اس سے پہلے انہیں بہت پختہ یقین دلاتا رہتا تھا کہ شرف نبوت صرف ان کے خاندان اور ان کی قوم کا حصہ ہے اور خاتم النبیین کا مرتبہ عظمیٰ کسی اسرائیلی ہی کو حاصل ہوگا۔ اس شرف عظیم سے محرومی نے انہیں آتش زیر پاکر دیا۔ ان کی ایک جماعت نے تو عقل ودانش سے کام لے کر اسلام قبول کر لیا اور اس عظمت وشرف کو نسلی تعلق کے بجائے ایمانی تعلق کے ذریعہ سے حاصل کر لیا۔ لیکن اکثریت کی عقل وبصیرت، غرور وحسد کی آتش سوزاں میں جل کر خاک سیاہ ہوگئی اور انہوں نے ہر اس کوشش کو اپنا مقصد حیات بنالیا۔ جو (خاکم بدہن) بظاہر نبی عظیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے ماہ عظمت وجلالت پر خاک ڈالنے کے مترادف ہو۔
اسی سلسلہ کی ایک کوشش یہ تھی کہ اہل اسلام کے عقیدہ ختم نبوت پر ضرب لگائی جائے۔ عقیدہ امامت بھی اسی لئے اختراع کیاگیا کہ اس عقیدہ کی دیوار میں رخنہ پیدا کر دیا جائے اور اس طرح آنحضورﷺ کی بے مثال عظمت کو دلوں سے مٹایا جائے۔ غالباً بارہ کا عدد بھی بارہ نقباء واسباط کی وجہ سے اختیار کیاگیا ہے جو عقیدہ امامت کے یہودی الاصل ہونے کی غمازی کر رہا ہے۔