منصب نبوت سے بے خبری
ختم نبوت کے بارے میں شک وشبہ کی وادیٔ پرخار میں پھنسانے والی یا قعر انکار میں گرانے والی ایک نفسی بیماری ہے جو کبھی کتاب وصاحب کتاب پر بے اعتمادی کے واسطہ سے اور کبھی بلاواسطہ اس ہلاکت آفرین بے راہ روی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ یہ ہے منصب نبوت سے بے خبری اور جہالت۔ نئے نبی کی تلاش کرنے والوں کی کوتاہ بینی اور پشت نظری اس مرتبۂ بلند کو دیکھنے سے مانع ہوتی ہے جو حق تعالیٰ جل شانہ نے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو عطاء فرمایا ہے۔ انہیں یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ ہر وہ شخص جو ان کی دانست میں سوسائٹی کی اصلاح کے لئے کوشاں ہو اور اپنے ذہن کو بلندی یا کردار کی خصوصیت کی وجہ سے معاصرین میں ایک ممتاز درجہ حاصل کرے۔ منصب نبوت کا اہل ہوسکتا ہے۔ حالانکہ صرف اصلاحی کام ہی نہیں بلکہ انقلابی کام بھی اس منصب عظیم کی اہلیت وصلاحیت سے ادنیٰ تعلق بھی نہیں رکھتا ہے۔ نبوت نہ تو محض فکری بلندی کا نام ہے۔ نہ عملی صلاحیتوں کا۔ بے شک انبیاء علیہم السلام ذہن وفکر کے لحاظ سے ساری دنیا سے ممتاز ہوتے ہیں اور اخلاق وکردار نیز عملی صلاحیتوں اور استعداد کے اعتبار سے ان کے کاخ بلند تک عوام کا طائر خیال بھی نہیں پہنچ سکتا۔ مگر یہ مرتبۂ عظمیٰ ذہن وفکر یا علم وعمل کی بلند پردازی سے بہت بلند اور ان کی دسترس سے باہر ہے۔ یہ ایک وہبی مرتبہ اور انتخابی درجہ ہے۔ جس پر وہی حضرات ممتاز اور فائز ہوتے ہیں۔ جنہیں رب العالمین کی رحمت خاصہ نے اس عہدے کے لئے منتخب کر لیا اور اپنے خطاب سے مشرف فرمایا۔ وحی رباّنی ان کی خصوصیت خاصہ ہے اور اﷲتعالیٰ کی جانب سے انتخاب ان کا حقیقی امتیاز ہے۔ جب تک کسی شخص میں یہ دو خصوصیتیں روز روشن کی طرح واضح نہ ہوں اور ناقابل تردید ثبوت انہیں روشن نہ کردے۔ اس وقت تک اسے مرتبۂ نبوت پر فائز سمجھنا ایک ہلاکت خیز جسارت اور اﷲتعالیٰ پر افتراء وبہتان ہے۔
عصمت
بے داغ زندگی اور مثالی کردار جسے اصطلاح شریعت میں عصمت سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اس مرتبہ عظمیٰ کے لوازم میں داخل ہے جو ارتقاء انسانیت کا آخری درجہ اور بلند ترین مقام ہے۔ ان امور پر نظر کئے بغیر کسی مدعی نبوت ورسالت کے دعویٰ کی طرف التفات کرنے والے عقلی وروحانی خودکشی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ وہ مستحق ملامت ہیں نہ کہ مستحق تعزیت۔
مقام نبوت سے بے خبر، سید الانبیاء کے مرتبہ عظیمہ سے کیا واقف ہو سکتے ہیں؟ انہیں