آتے رہے اور یہ سلسلہ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے ساتھ جاری رہا۔ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ سے آفتاب رسالت طلوع ہوا۔ محفل انجم برخاست ہوگئی اور سلسلۂ نبوت ورسالت سید المرسلینﷺ پر ختم کر دیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ ایک سوال ہے جس نے اس زمانہ میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر لی ہے۔
اہمیت کی وجہ
قرآن مجید نے بہت صفائی کے ساتھ اس واقعہ کا اعلان کر دیا ہے کہ محمد رسول اﷲﷺ اﷲ کے آخری نبی ہیں اور قرآن مجید انسان کے لئے آخری اور مکمل ہدایت نامہ ہے۔ سید المرسلینﷺ کے بعد قیامت تک اب کسی شخص کو مرتبہ رسالت پر فائزنہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح قرآن حکیم کے بعد کوئی کتاب ہدایت قیامت تک نہیں بھیجی جائے گی۔ یوم آخر تک ساکنان دنیا کے لئے دو ہی نوری مینار ہیں۔ جن سے وہ رضاء الٰہی کا راستہ پاسکتے ہیں۔ ایک قرآن مبین اور دوسرا سیرت مقدسہ۔ قرآن حکیم کے علاوہ خود نبی کریمﷺ نے بہت وضاحت کے ساتھ اس کا اعلان واظہار فرمادیا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہ آئے گا اور نوع انسانی میں نبوت ورسالت کا شرف واعزاز کسی جدید شخص کو نہیں دیا جائے گا۔ قرآن وصاحب قرآن کے ان روشن بیانات کے بعد اس مسئلہ میں کسی اختلاف کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ چنانچہ قرن اوّل میں اس کے بارے میں کسی ادنیٰ شک وشبہ کا بھی وجود نہ تھا اور صحابہ کرامؓ کے نزدیک اس بارے میں دو رائیں ہونے کی ذرہ برابر بھی گنجائش نہ تھی۔
صحابہ کرامؓ کے دور مسعود کے بعد شیعیت نے تحریک کا لباس اتار کر مذہب وفرقہ کا جامہ پہنا تو اس کی بنیاد مسئلہ اما مت پر رکھی۔ اس مسئلہ کی اختراع ختم نبوت کے خلاف سب سے پہلی بغاوت تھی۔ انہوں نے اپنے ائمہ کی طرف اوصاف ولوازم نبوت بتمام وکمال منسوب کئے۔ بلکہ ان میں بعض ایسے کمالات کے قائل ہوئے جو انبیاء ومرسلین کے لئے بھی ثابت نہیں ہیں۔ لیکن باوجود اس کے انہیں صراحۃً نبی ورسول کہنے کی جرأت نہ کر سکے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ ختم نبوت کا عقیدہ اہل اسلام میں اس قدر مستحکم اور اس قدر مشہور تھا کہ کوئی شخص اس کا صریح انکار کر کے زمرۂ مسلمین میں داخل رہنے کا دعویٰ ہی نہ کر سکتا تھا۔ نہ کوئی شخص اس کا تصور کر سکتا تھا کہ سید المرسلین کو خاتم النبیین تسلیم کئے بغیر کسی کا اسلام قائم رہ سکتا ہے۔
یہ دور بھی گذر گیا اور وہ وقت آگیا کہ عقیدہ امامت نے انکار ختم نبوت کو جو پودا نصیب کیا تھا وہ درخت کی شکل اختیار کر کے برگ وبار لے آئے۔ اس وقت کو قریب لانے