ہے۔ جو خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں اور ان میں سے جن کو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنے نور کے سایہ کے نیچے رکھتا ہے۔‘‘ (تحفہ قیصریہ ص۲۰، خزائن ج۱۲ ص۲۷۲)
’’اس خدا کے دائمی پیارے اور دائمی محبوب اور دائمی مقبول کی نسبت جس کا نام یسوع ہے۔‘‘ (تحفہ قیصریہ ص۲۲، خزائن ج۱۲ ص۲۷۴)
’’جس قدر عیسائیوں کو حضرت یسوع مسیح سے محبت کرنے کا دعویٰ ہے۔ وہی دعویٰ مسلمانوں کو بھی ہے۔ گویا آنجناب کا وجود عیسائیوں اور مسلمانوں میں ایک مشترک جائیداد کی طرح ہے۔‘‘ (تحفہ قیصریہ ص۲۳، خزائن ج۱۲ ص۲۷۵)
لیجئے! اب تو یسوع بھی مرزاقادیانی کی نظر میں کوئی حقیر اور قابل نفرت انسان نہ رہا۔ بلکہ خدا کا نہایت پیارا، خدا کا برگزیدہ خدا کے ہاتھ سے صاف کیا ہوا اور اس کے نور کے سایہ میں رہنے والا پاک انسان ٹھہرا تو کیا اس صاف باطن کو بدکار اور بدباطن کہنا اور روشنی بخشنے والے چاند پر تھوکنے کی کوشش کرنا اسی شخص کا کام ہے۔ جس میں خدا کی روح ہو۔ یا اس شخص کا جو من کل الوجوہ تصرف شیطان میں ہو۔ انصاف! انصاف!!
مگر نہیں مرزائی کہیں گے کہ کہیں عیسیٰ علیہ السلام کا نام لے کر ناروا بات کہی ہو۔ یا الزام لگایا ہو تو بتاؤ۔ ورنہ ہم کسی صورت میں نہیں مانیں گے کہ مرزاقادیانی نے خدا کے پاک نبی کے حق میں گستاخی کی ہے۔ لئے ہم اپنے دوستوں کی یہ بات بھی مان لیتے ہیں اور ان کی خاطر وہ مقام نقل کرتے ہیں جہاں مسیح علیہ السلام کا نام لے کر اور عیسیٰ علیہ السلام کہہ کر کفر بکا ہے اور گالیاں دی ہیں۔ تاکہ کوئی حجت باقی نہ رہنے پائے۔
دوستو! ہم ثبوت پر ثبوت پیش کئے جائیںگے اور عذر وحیلہ کی تمام راہیں مسدود کردیںگے۔ مگر تمہیں بھی قسم ہے۔ جو کسی ایک بات کو بھی مان لو۔ اب آنکھوں سے تعصب وجہالت کے پردوں کو اٹھاؤ اور کانوں سے روئی نکالو اور سنو کہ مرزاقادیانی حضرت مسیح کو کس طرح کوس رہے ہیں۔
الف… ’’عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔ شاید بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت سے۔‘‘ (کشتی نوح ص۶۶ حاشیہ، خزائن ج۱۹ ص۷۱)
ب… ’’ایک خوبصورت کنجری ایسی قریب بیٹھی ہے۔ گویا بغل میں ہے۔ کبھی ہاتھ لمبا کر کے سر پر عطر مل رہی ہے۔‘‘ (نور القرآن حصہ اوّل ص۷۴، خزائن ج۹ ص۴۴۹)