خدمت کردیں۔ جو اس قدر مسکت اور دندان شکن ہے کہ اگر مرزاقادیانی پھر قبر سے نکل آئیں تو باوجود اس کے کہ وہ تحریف کلام میں یدطولیٰ رکھتے ہیں اور باتیں بنانے میں انہیں کافی مشق ہے۔ اس حوالہ کو نہ توڑ موڑ سکیں۔ کیونکہ یہ قطعی اور فیصلہ کن ہے اور ان کی زبان سے مجرمانہ اقبال ہے۔ لیکن پھر بھی کیا ہی سچا قول ہے کہ نادانستہ ان کے منہ سے نکل گیا۔ کوئی مرزائی حیا اور تقویٰ کو رکھتے ہوئے اس کا جواب دے۔ ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’جن نبیوں کا اسی وجود عنصری کے ساتھ آسمان پر جانا تصور کیاگیا ہے۔ وہ دو نبی ہیں۔ ایک یوحنا… دوسرے مسیح ابن مریم۔ جن کو عیسیٰ اور یسوع بھی کہتے ہیں۔‘‘ (توضیح المرام ص۳، خزائن ج۳ ص۵۲)
ایک حوالہ ہم اور بھی دے دیں۔ کتاب ازالہ اوہام مرزاقادیانی نے حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کے ثبوت میں تصنیف کی ہے۔ جس میں قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے اقوال سے جمہور اہل اسلام کے عقیدہ کے خلاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت ثابت کرنا چاہی ہے اور اس میں علمائے اہل اسلام کی طرف روئے سخن ہے۔ لکھا ہے کہ: ’’اے حضرات مولوی صاحبان جب کہ عام طور پر قرآن شریف سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے اور ابتداء سے آج تک بعض اقوال صحابہ اور مفسرین بھی اس کو مانتے چلے آئے ہیں تو اب آپ لوگ ناحق کی ضد کیوں کرتے ہیں۔کہیں عیسائیوں کے خدا کو مرنے بھی دو۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۴۶۹، خزائن ج۳ ص۳۵۱)
یہ حوالے اس امر کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ مرزاقادیانی کو حضرت مسیح علیہ السلام سے نہایت عداوت تھی۔ وہ کہتے تھے کہ:
ہم اور غیر دونوں یکجا بہم نہ ہونگے
ہم ہونگے وہ نہ ہونگے وہ ہونگے ہم نہ ہونگے
یہ اصل حقیقت ہے۔ جسے مرزاقادیانی مسلمانوں سے عمر بھر چھپاتے رہے اور ان کی ذریت کو اس کا اخفا پسند ہے۔ لیکن سارے جہاں کی آنکھوں میں تو خاک جھونکی جا نہیں سکتی۔ بھلا یہ بھی کوئی عذر ہے کہ یسوع کو ہم نے سخت سست کہا اور خدا جانے وہ انجیلی یسوع کون تھا۔ لو مرزائیو! تم بھی کیا کہوگے۔ ہم تمہیں بتاتے ہیں اور مرزاقادیانی کے الفاظ میں بتاتے ہیں کہ یسوع کی کیا شان تھی۔ سنو مرزاقادیانی کیا فرماتے ہیں: ’’اس (خدا) نے مجھے اس بات پر بھی اطلاع دی ہے کہ درحقیقت یسوع مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے اور ان میں سے