قادیانی گروہ کو بھی ایک اسلامی فرقہ سمجھیں گے اور ان کے اختلاف کو زیادہ اہمیت نہ دیں گے تو ان کا لٹریچر بھی پڑھیں گے اور ان کی گمراہ کن تقریریں بھی سنیں گے۔ اس اختلاط کا نتیجہ ان لوگوں کے حق میں جو دین سے بہت کم واقف ہیں اور فہم دین بھی کم ہی رکھتے ہیں۔ بعض اوقات ارتداد وضلال کی صورت میں نکلے گا۔ یہ محض عقلی احتمال نہیں ہے بلکہ اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ حیدرآباد دکن (ہند) کے ایک وکیل کا واقعہ ابھی چند ماہ کا ہے جو اسی طرح قادیانی لٹریچر دیکھ کر اسلام کو چھوڑ کر قادیانیت کی دلدل میں پھنس گئے۔ یہ واقعہ مشہور ہے اور اخبارات میں آچکا ہے۔
فتنہ کا مقابلہ کرنے کی ضرورت
انکار ختم نبوت کا فتنہ بہت ہی شدید فتنہ ہے۔ اس کی شدت کی نسبت سے اس کے مقابلہ کا فریضہ بھی اہم ہو جاتا ہے۔ اگر ہم اس فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی کریں گے تو کل دربار الٰہی میں ذلیل وخوار اور خاتم النبیینﷺ کے سامنے نادم وشرمسار ہوںگے۔ ظاہر ہے کہ مقابلہ کی ایک ہی شکل ہے کہ مسئلہ ختم نبوت کو دلائل وبراہین کی روشنی میں دلنشین انداز میں پیش کیا جائے اور اس قسم کے لٹریچر کو حتی الامکان ہر مسلمان تک پہنچایا جائے۔ یہ کتاب اسی مقصد کے لئے ایک کوشش ہے۔ جسے جہد المقل کہنا موزوں ہے۔
کتاب کا موضوع عقیدہ ختم نبوت ہے نہ کہ ردّقادیانیت۔ اگرچہ اس سے خود بخود ان کے مذہب باطل کی جڑکٹ جاتی ہے۔ لیکن اصل مقصد یہ ہے کہ اس عقیدہ کے نورانی چہرے سے حجابات کو اٹھا دیا جائے تاکہ اس کی تابناکی کی وجہ سے ظلمت قادیانیت خود بخود پارہ پارہ ہوکر معدوم وفنا ہو جائے۔ منصف مزاج قادیانی بھی اس سے ہدایت حاصل کر کے قادیانیت کے ضلال سے نجات پاسکتے ہیں اور ناواقف مسلمان بھی اس تریاق کے ذریعہ سے دشمنان ختم نبوت کے زہر سے محفوظ ہو سکتے ہیں۔ دونوں مقصد پیش نظر ہیں۔ لیکن نتیجہ اﷲتعالیٰ کے اختیار میں ہے۔
موضوع کی تخصیص کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ خاتم النبیینﷺ سے غداری کرنے والوں نے اب یہ چال چلنا شروع کی ہے کہ اپنے متنبی کے دعوائے نبوت کی دعوت دینے سے پہلے امت مسلمہ کے دین سے ناواقف افراد خصوصاً جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو عقیدۂ ختم نبوت سے منحرف یا کم ازکم اس کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاکہ ایک کفر وضلال دوسرے کفر وضلال کے لئے زمین ہموار کر دے۔