عقیدہ ختم نبوت
عقیدہ ختم نبوت بھی ضروریات دین میں داخل ہے اور اس کا انکار یقینا کفر وارتداد ہے۔ جس سے کوئی تاویل نہیں بچا سکتی۔ اہل سنت کے نزدیک یہ ایک مسلّمہ مسئلہ ہے۔ اس کے متعلق زیادہ تفصیل بخوف طوالت ترک کر کے ہم صرف صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کا طرز عمل پیش کرتے ہیں جو انہوں نے منکریں ختم نبوت کے ساتھ اختیار کیا تھا۔ منصف مزاج اور سمجھدار مسلمان کے لئے یہ ایسی بدیہی دلیل ہے کہ جس کے بعد اسے کسی مزیددلیل وبرہان کی احتیاج باقی نہیں رہتی۔
نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد سب سے پہلے جس فتنہ عظیمہ سے صحابہ کرامؓ کو مقابلہ کرنا پڑا وہ یہی انکار ختم نبوت کا فتنہ تھا۔ اس کے متعلق یہ واقعہ پیش نظر رکھئے کہ مدعیان نبوت اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب اور ان کے متبعین کلمہ گو اور اسلام کے مدعی تھے۔ وہ توحید کے بھی مقرّ تھے اور رسالت محمدیہﷺ کے بھی۔ مگر صحابہ کرامؓ کی پوری جماعت نے اجتماعی طور پر انہیں خارج از اسلام اور مرتد قرار دیا اور اس وقت تک چین نہ لیا جب تک اس مرتد گروہ کا قلع قمع نہ کر دیا۔
صحابہ کرامؓ جنہوں نے براہ راست معلم اعظمﷺ سے دین کی تعلیم اور اس کی فہم حاصل کی تھی۔ ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل ایک طرف تو اس حقیقت کو اور زیادہ روشن کر دیتا ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت ضروریات دین میں داخل اور اس کا بہت ہی اہم جز ہے۔ جس کی حفاظت کرنا بہت ہی اہم فریضہ ہے۔ دوسری طرف یہ بھی بتا رہا ہے کہ اس کے منکرین کو قطعی طور پر خارج از اسلام قرار دیا جائے گا اور اس سلسلہ میں کسی تاویل وتوجیہہ کو قابل سماعت نہ سمجھا جائے گا۔
تعجب خیز ہے طرز عمل ان حضرات کا جو صحابہ کرامؓ کے اس طرز عمل سے واقف ہوتے ہوئے بھی قادیانیوں کی حمایت فرماتے رہتے ہیں اور انہیں مسلمان کہتے ہیں۔ حد ہو گئی کہ یہ حضرات خود مرزاقادیانی کو باوجود ان کے کھلے ہوئے دعویٰ نبوت کے دائرہ اسلام میں داخل سمجھتے ہیں اور اس کے لئے ان کی طرف سے عجیب وغریب تاویلات کرنے کی سعی لا حاصل کرتے ہیں۔ یہ طریقہ صحابہ کرامؓ کے مندرجہ بالا اجتماعی مسلک کے خلاف ہونے کے علاوہ آیت کریمہ ’’ولا تکن للخائنین خصیما‘‘ کے بھی صراحۃً مخالف ہے۔
اس کے ساتھ یہ طرز امت کے لئے سخت ضرر رساں بھی ہے۔ ناواقف مسلمان جب