بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
حرف آغاز
الحمد ﷲ وکفیٰ والصلوٰۃ علیٰ عبادہ الذی اصطفیٰ۰امابعد!
اسلام ایک عزیز وعظیم امانت ہے اور امت مسلمہ اس دین مبین کی امین اور ہم اگر اس کی حفاظت میں کوتاہی کریں تو یقینا یہ بہت بڑی خیانت ہوگی۔ جس کی پاداش میں روز قیامت ہم گرفتار عذاب الیم ہوں گے۔
اس گراں بہا امانت کی حفاظت کے معنی یہ ہیں کہ اس کا ایک ایک جزو اسی طرح باقی رہے۔ جس طرح اﷲ کے آخری رسول محمدﷺ نے امت کو عطاء فرمایا تھا اور اس میں ذرا سی بھی تبدیلی، تحریک یا کمی بیشی کو گوارا نہ کیا جائے۔
حفاظت دین کا تقاضا
حفاظت دین ایک اہم فریضہ ہے۔ جو پوری امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ پر عموماً اور اس کے علماء وقائدین پر خصوصیت کے ساتھ عائد ہوتا ہے۔ اس کا بدیہی تقاضہ یہ ہے کہ جو لوگ دین میں تبدیلی وتحریف کی کوشش کریں۔ ان کی گمراہی کو علیٰ رؤس الاشہاد واضح اور دلائل وبراہین کی روشنی میں ان کے دجل وفریب کو آشکارا کیا جائے۔
گمراہی کے مختلف درجات ہیں اور ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ہم کسی فرد یا گروہ کو گمراہ یا جادۂ استقامت سے منحرف کہتے وقت، یہ بھی واضح کردیں کہ اس کی گمراہی کا درجہ اور دین حق سے اس کے انحراف کی نوعیت کیا ہے؟۔
یہ درحقیقت دین کے اس جز کے درجہ ومرتبہ پر موقوف ہے۔ جس کے انکار کا جرم اس گمراہ گروہ یا فرد نے کیا ہے۔ اجزاء دین میں سب سے بڑا درجہ ضروریات دین کا ہے۔ جن کا انکار کفر وارتداد کے مترادف ہے۔ ضروریات دین میں سے کسی جز کا انکار اسلام کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا اور اس معاملہ میں کوئی تاویل بھی منکر کو کفر وارتداد سے نہیں بچا سکتی۔ یہاں اس مسئلہ کی زیادہ تفصیل غیرضروری بھی ہے اور موجب طوالت بھی۔ لیکن ہم اتنا ضرور کہیں گے کہ ایسے لوگوں کو جو اسلام کے کسی ضروری عقیدے کے منکر ہوں (خواہ یہ انکار کسی تاویل ہی پر مبنی کیوں نہ ہو) اسلام میں داخل سمجھنا خود اسلام پر ایک اتہام وبہتان اور ظلم کے مرادف ہے۔