وہ دوجداگانہ ہستیاں ہیں۔ عقل اور انصاف کو نہ چھوڑو، لو اب اور سنو۔ لکھتے ہیں: ’’اور دوسری قسم ظلم کی جو خالق کی نسبت ہے وہ اس زمانہ کے عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو خالق کی نسبت کمال غلو تک پہنچ گیا ہے۔ اس میں تو کچھ شک نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی ہیں اور بلاشبہ عیسیٰ مسیح خدا کا پیارا خدا کا برگزیدہ اور دنیا کا نور اور ہدایت کا آفتاب اور جناب الٰہی کا مقرب اور اس کے تحت کے نذدیک مقام رکھتا ہے اور کروڑہا انسان جو اس سے سچی محبت رکھتے ہیں اور اس کی وصیتوں پر چلتے ہیں اور اس کی ہدایات کے کاربند ہیں۔ وہ جہنم سے نجات پائیںگے۔ لیکن باایں یہ سخت غلطی اور کفر ہے کہ اس برگزیدہ کو خدا بنایا جائے۔ خدا کے پیاروں کو خدا سے ایک بڑا تعلق ہوتا ہے۔ اس تعلق کے لحاظ سے اگر وہ اپنے تئیں خدا کا بیٹا کہہ دیں یا یہ کہہ دیں کہ خدا ہی ہے جو ان میں بولتا ہے اور وہی ہے جس کا جلوہ ہے تو یہ باتیں بھی کسی حال کے موقعہ میں ایک معنی کی رو سے صحیح ہوتی ہے۔‘‘ (ضمیمہ رسالہ جہاد ص۴، خزائن ج۱۷ ص۲۶)
گویا حضرت مسیح علیہ السلام خدا کے برگزیدہ، دنیا کے نور، ہدایت کے آفتاب، جناب الٰہی کے مقرب اور تخت خداوندی کے نزدیک مقام رکھتے ہیں۔ مگر عیسائی ان کے حق میں مبالغہ کر کے… انہیں خدا بنا دیتے ہیں۔ شخصیت تو ایک ہے۔ لیکن دو قوموں نے دو مختلف حیثیتیں انہیں دے دی ہیں۔ مسلمان انہیں اولوالعزم رسول سمجھتے ہیں اور عیسائی انہیں خدا کہتے ہیں۔ جیسے خود مرزاقادیانی کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک جماعت انہیں مجدد مانتی ہے اور دوسری جماعت نبی۔ ایک اور واضح حوالہ ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں: ’’یحییٰ کو اس پر فضیلت ہے۔ کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبھی نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا تھا۔ یا ہاتھوں یا اپنے سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوا تھا۔ یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۔ اس وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ علیہ السلام کا نام حصور رکھا۔ مگر مسیح کا نام نہ رکھا۔ کیونکہ ایسے قصے اس کا نام رکھنے سے مانع تھے۔‘‘ (دافع البلاء حاشیہ ص۴، خزائن ج۱۸ ص۲۲۰)
یہاں تو غضب ہی کر دیا۔ جن قصوں کی بناء پر وہ مسیح کی زندگی پر معترض ہیں۔ان پر آخر مہرتصدیق ثبت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ مسیح کا نام قرآن میں ’’حصور‘‘ نہیں رکھا گیا۔ کیونکہ ایسے قصے اس کا نام رکھنے سے مانع تھے۔ یہ قصے مرزاقادیانی نے کہاں سے لئے؟ اور کس سے متعلق ہیں۔ کیا انجیل سے اخذ نہیں کئے؟ اور یہ انجیلی یسوع نہیں؟ مگر آپ نے تو یہاں اسے خود ہی مسیح بھی کہہ دیا اور قرآن میں اس کے لئے حصور کا لفظ تلاش کرنے لگے۔ اگر خدا نے قرآن میں یسوع کی خبر نہیں دی۔ نہ سہی مگر مسیح کی خبر تو دی ہے۔ اب ہم ایک اور حوالہ پیش