۱۱… ’’آپ کی عقل بہت موٹی تھی۔ آپ جاہل عورتوں اور عوام الناس کی طرح مرگی کو بیماری نہ سمجھتے تھے۔ جن کا آسیب خیال کرتے تھے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹)
۱۲… ’’نہایت شرم کی بات ہے کہ آپ نے پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے۔ یہودیوں کی کتاب طالمود سے چرا کر لکھا اور پھر ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا یہ میری تعلیم ہے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰)
۱۳… ’’آپ کا ایک یہودی استاد تھا۔ جس سے آپ نے تورات کو سبقاً پڑھا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یاتو قدرت نے آپ کو زیر کی سے کچھ بہت حصہ نہیں دیا تھا اور اس استاد کی شرارت ہے کہ آپ کو سادہ لوح رکھا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰)
۱۴… ’’آپ علمی اور عملی تقویٰ میں بہت کچے تھے۔ اسی وجہ سے آپ ایک مرتبہ شیطان کے پیچھے پیچھے چلے گئے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰)
۱۵… ’’ایک فاضل پادری فرماتے ہیں کہ آپ کو اپنی تمام زندگی میں تین مرتبہ شیطانی الہام بھی ہوا۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ اسی الہام سے خدا کے منکر ہونے کے لئے بھی تیار ہوگئے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰)
۱۶… ’’آپ کی انہی حرکات سے آپ کے حقیقی بھائی آپ سے سخت ناراض رہتے تھے۔ ان کو یقین تھا کہ آپ کے دماغ میں ضرور کچھ خلل ہے اور ہمیشہ چاہتے تھے کہ کسی شفاخانہ میں آپ کا باقاعدہ علاج ہو۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰)
۱۷… ’’عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰)
۱۸… ’’چاہئے تھا کہ وہ ایسی لاف وگزاف سے اپنی زبان کو بچاتے اور اسی پہلی بات پر قائم رہتے کہ میری بادشاہت دنیا کی بادشاہت نہیں۔ مگر نفسانی جذبات کی وجہ سے صبر نہ کر سکے اور اپنے پہلے پہلو میں ناکامی دیکھ کر ایک اور چال اختیار کی اور پھر جب باغی ہونے کے شبہ میں پکڑے گئے تو پھر اپنے تئیں بغاوت کے الزام سے بچنے کے لئے وہی پہلا پہلو اختیار کیا۔ دعویٰ خدائی کا اور پھر یہ چالبازیاں جائے تعجب ہے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۱۳، خزائن ج۱۱ ص۱۳)
۱۹… ’’ساری رات آنکھوں میں رو رو کر نکالی۔ پھر بھی دعا منظور نہ ہوئی۔ ایلی