۸… ’’خدا ایسے شخص کو دوبارہ دنیا میں نہیں لاسکتا۔ جس کے پہلے فتنہ نے ہی دنیا کو تباہ کیا ہو۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۵، خزائن ج۱۸ ص۲۳۵)
۹… ’’آپ کو گالیاں دینے اور بدزبانی کرنے کی اکثر عادت تھی۔ ادنیٰ ادنیٰ بات میں غصہ آجاتا تھا۔ اپنے نفس کو جذبات سے روک نہیں سکتے تھے۔ مگر میرے نزدیک آپ کی یہ حرکت جائے افسوس نہیں۔ کیونکہ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیا کرتے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ آپ کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹)
۱۰… ’’اس درماندہ انسان کی پیشین گوئیاں کیا تھیں۔ صرف یہی کہ زلزلے آئیںگے۔ قحط پڑیں گے۔ لڑائیاں ہوںگی۔ نادان اسرائیلی نے ایسی معمولی باتوں کا پیش گوئی کیوں نام رکھا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۴، خزائن ج۱۱ ص۲۸۸)
(بقیہ حاشیہ) پر جو مجمع عام کے روبرو اس سے ہوا۔ یہ کہ اس نے اپنا سر روح اﷲ کے پاک قدموں میں رکھ دیا اور پاؤں پر عطر انڈھایا۔ یہ شریرانہ اعتراضات اوباشانہ کلمات اور سوفیانہ گفتگو کہ کوئی پرہیز گار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سرپر ناپاک ہاتھ لگائے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پاؤں پر ملے۔ بھلا اس سے کوئی پوچھے کہ تجھے کیونکر معلوم ہوا کہ وہ تائب عورت کنجری تھی۔ حالانکہ اصل یونانی متن میں جو الفاظ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی گنہگار عورت کے ہیں اور پھر تجھے یہ کیونکر معلوم ہوا کہ وہ کنجری جوان بھی تھی اور مزید برآں جو عطر کی شیشی اس کے پاس تھی جب کہ وہ ایمان لائی۔ اس میں حرام کاری کی کمائی کا عطر تھا اور یہ کہ وہ عورت بدنظری کا محل تھی اور خاکم بدہن مسیح نے اس عورت کو ایسی نظر سے دیکھا جو قابل اعتراض ہے۔ یہ کیسی غیرثابت شدہ وبے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ بات ہے۔ اس کرتوت پر بھی حضرت مسیح علیہ السلام پر اعتراضات یہ باتیں صرف وہی کرسکتا ہے۔ جسے نہ خدا کا خوف ہو نہ خلق خدا سے شرم اے مرزا نفسانیت کی عینک اتار کر دیکھ تو تجھے حقیقت معلوم ہوگی اور اپنی فطرت پر روح اﷲ کا اندازہ نہ کر۔ جھوٹوں کے لئے ذلت اور خواری ہے۔ رسوائی وروسیاہی ہے۔ مگر جس نے بے حیائی وبے شرمی کا آسرا کر رکھا ہو اسے کوئی کیا سمجھائے ؎
حیا و شرم وندامت اگر کہیں بکتیں
تو ہم بھی لیتے کسی اپنے مہربان کے لئے