۳… ’’یہ تو وہی بات ہوئی کہ جیسا کہ کسی شریر مکار نے جس میں سراسر یسوع کی روح تھی۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹)
۴… ’’مریم کا بیٹا کشلیا کے بیٹے سے کچھ زیادت نہیں رکھتا۔‘‘
(انجام آتھم ص۴۱، خزائن ج۱۱ ص۴۱)
۵… ’’عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔ شاید بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت سے۔‘‘ (کشتی نوح ص۶۶، خزائن ج۱۹ ص۷۱)
۶… ’’ایک لڑکی پر عاشق ہوگیا تھا۔ بازاری عورت سے عطر ملواتا تھا۔‘‘
(الحکم مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۲ئ)
۷… ’’آپ کا کنجریوں سے میلان۱؎ اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے۔ ورنہ کوئی پرہیز گار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگاوے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے… سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا آدمی کس چال چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
۱؎ اسی طریق استدلال کے مطابق مرزاقادیانی کا میلان طبع دیکھنا اور معلوم کرنا ہو کہ ان کی جوانی کا زمانہ کیسے لوگوں کی صحبت میں گذرا تو ہم سے سنئے۔ ہم ان کی پوتھی؟ سے ان کو سنا دیں۔ لکھتے ہیں کہ: ’’زیادہ تر تعجب یہ ہے کہ ایسی عورت (کنجری) ایسی رات میں بھی کہ جب وہ بادہ بہ سر اور یار آشنا بہ بر کا مصداق ہوتی ہے۔ کوئی خواب دیکھ لیتی ہے اور وہ سچی نکلتی ہے۔‘‘ (توضیح المرام ص۸۰، خزائن ج۳ ص۹۵) یہ سب تجربہ کی باتیں ہیں اور ارباب نشاط کی صحبت ورفاقت پر دلالت کرتی ہیں۔ جن کی ہم نشینی اور موانست ومجالست مرزاقادیانی کو میسر ہوگی۔ بزم رقص وسرود میں بھی اعزاز شمولیت حاصل ہوگا اور ان کے خواب بھی سنتے ہوںگے اور ہم نے یونہی نہیں کہہ دیا کہ یہ تجربہ کی باتیں ہیں۔ بلکہ مرزاقادیانی خود ہی فرماتے ہیں کہ: ’’میرا ذاتی تجربہ ہے…… کہ زانیہ اور قوم کے کنجر جن کا دن رات پیشہ زناکاری کا تھا۔ ان کو دیکھا گیا کہ بعض خوابیں انہوں نے بیان کیں اور وہ پوری ہوگئیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳، خزائن ج۲۲ ص۵) اس منہ سے اور اس کرتوت پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اعتراض جن کے بدن کو ایک گنہگار عورت نے جو ایمان لے آئی تھی۔ چھوأ اور بدن بھی ہاں ایسا پاک ومطہر کہ جس کے چھونے سے بیماریاں دور ہو جاتی تھیں۔ جس سے اعجازی قوت ہر دم نکلتی رہتی تھی۔ ایک مومنہ کے اظہار عقیدت (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)