آخری فیصلہ
لطف یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء کو ایک اشتہار بعنوان ’’مولوی ثناء اﷲ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘ شائع کیا تھا۔ اس اشتہار میں مولانا ثناء اﷲ امرتسری کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ’’اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں۔ جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں۔ تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا… مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اﷲ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعاء کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر۔ مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون۱؎ وہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸، ۵۷۹)
مرزاقادیانی کے مندرجہ بالا الفاظ اعلان کر رہے ہیں کہ مرزاقادیانی مولانا ثناء اﷲ امرتسری کے لئے طاعون اور ہیضہ کی دعا کرتے تھے۔
مگر اﷲتعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے قبولیت دعا کا رخ مولانا ثناء اﷲ کی بجائے خود متبنی قادیان کی طرف پھیر دیا اور ہیضہ نے مرزاقادیانی کو آدبوچا اور وہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو ہیضہ سمیت اگلے جہاں کی طرف کوچ کر گئے۔ کسی زندہ دل شاعر نے مرزاقادیانی آنجہانی کی تاریخ وفات لکھی ہے ؎
۱؎ طاعون نے بھی مرزاقادیانی سے دست پنجہ لیا تھا۔ جیسا کہ انہوں نے سیٹھ عبدالرحمن مدراسی کو لکھا۔ ’’اس طرف طاعون کا بہت زور ہے۔ سنا ہے ایک دو مشتبہ وارداتیں امرتسر میں بھی ہوئی ہیں۔ چند روز ہوئے ہیں میرے بدن پر بھی ایک گلٹی نکلی تھی۔ پہلے کچھ خوفناک آثار معلوم ہوئے۔ مگر پھر خداتعالیٰ کے فضل سے اس کا زور جاتا رہا۔ ایک ہاتھ میں غدود پھول گئے تھے اور یہ طاعون جوڑوں میں ہوتی ہے۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۵ حصہ اوّل ص۱۵)