یوں کہا کرتا تھا مر جائیں گے اور
اور تو زندہ ہیں خود ہی مرگیا
اس کے بیماروں کا ہو گا کیا علاج
کالرہ۱؎ سے خود مسیحا مر گیا
(۱۳۲۶ھ)
مرزائیوں کی ماں
نصرت جہاں بیگم یعنی مرزاقادیانی زندیق کی بیوی بھی اپنے دجال اور کذاب شوہر کی طرح ہیضہ سے ہلاک ہوگئی۔ مگر اپنی مرتد ذریت مرزامحمود قادیانی کو بیسیویں صدی کے مسیلمہ کذاب کی صورت میں پیچھے چھوڑ گئی جو اپنی پوری طاقت سے کفر اور ارتداد پھیلا رہا ہے اور امت مسلمہ کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ مرزائیوں نے اپنی ماں کے مرض موت ہیضہ کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔ جس طرح اس کے گرو گھنٹال خاوند مرزاقادیانی کے مرض موت ہیضہ کو چھپانے کی کی تھی اور ساتھ ہی یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس مرتد کا مرتے وقت تعارف کراتے ہوئے بھی فریب سے کام لیا گیا ہے اور مطلق شرم وحیا نہیں محسوس کی کہ اس نے اپنی شب عروسی چارپائی کے پائے پکڑ کر کیوں گذار دی۔ اگر کوئی اس کا راز معلوم کرنا چاہتا ہے تو اسے مرزائیوں کی ماں نصرت جہاں بیگم کا وہ خط مطالعہ کرنا چاہئے جو اس نے شادی کے دوسرے دن اپنے والد کو لکھا تھا۔ جس میں یہ لکھا تھا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ خود کشی کر لوں۔ کیونکہ شادی کے وقت نصرت جہاں کی عمر ۱۶سال کی تھی اور مرزاغلام احمد قادیانی کی عمر تقریباً ۴۵سال تھی اور وہ نامردی کا علاج کرواتے پھرتے تھے۔ مرزاقادیانی کے خطوط کی نقل ہمارے پاس موجود ہے۔
۱؎ انگریزی میں کالرہ ہیضہ کو کہتے ہیں۔