حضور کے پاس موجود تھے۔ حضور جب کبھی دماغی محنت کیا کرتے تھے تو عموماً آپ کو دوران سر اور اسہال کا مرض ہو جاتا تھا۔ چنانچہ لاہور جب حضور اپنے لیکچر کا مضمون تیار کر رہے تھے توکثرت دماغی محنت کے باعث آپ کی طبیعت خراب ہوگئی اور دوران سر اور اسہال کا مرض ہوگیا اور اس مرض کے علاج کے لئے جو ڈاکٹر بلایا گیا تھا وہ انگریز لاہور کا سول سرجن تھا اور چونکہ بعض مخالفین نے اس وقت بھی یہ شور مچایا تھا کہ آپ کو ہیضہ ہوگیا ہے۔ اس لئے صاحب سول سرجن نے یہ لکھ دیا کہ آپ کو ہیضہ نہیں ہوا اور وفات کے بعد آپ کی نعش مبارک ریل میں بٹالہ تک پہنچائی گئی۔ اگر ہیضہ ہوتا تو ریل والے نعش مبارک کو بک نہ کرتے۔ پس مخالفین کا یہ کہنا بالکل جھوٹ ہے کہ حضور ہیضہ سے فوت ہوئے۔‘‘
(مفتی محمد صادق ربوہ مورخہ ۲۲؍جنوری ۱۹۵۱ئ، الفضل مورخہ ۱۱؍فروری ۱۹۵۱ء ص۵)
قادیانی مفتی نے کس قدر جسارت اور دیدہ دلیری سے ایک مسلمہ حقیقت پر خاک ڈالنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ وہ مرزائی ہی کیا ہوا جو حق کو کذب بیانی کے پردہ میں چھپانے کی کوشش نہ کرے۔ خود جھوٹ کا مرتکب ہونا اور الزام دوسروں پر لگانا قادیانیوں کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ان کی یہ چال بازی ان کے دجل وفریب اور کذب وافتراء کی غمازی کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ انگریز کی بخشی ہوئی نبوت میں بیٹھ کر قادیانی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مستور ہیں۔ ہمیں کوئی نہیں دیکھتا۔ جائز وناجائز جو چاہیں کرتے چلے جائیں۔ انہیں کیا معلوم کہ مجلس تحفظ ختم نبوت کے خدام مرزائیوں کے راز ہائے دروں پردہ کو مرزائیوں سے زیادہ جانتے ہیں۔
جلوے مری نگاہ میں کون ومکاں کے ہیں
مجھ سے کہاں چھپیں گے وہ ایسے کہاں کے ہیں
مرزاقادیانی کے مرض موت ہیضہ کو چھپانے کے لئے مفتی کاذب نے دوران سر اور اسہال کا لبادہ اوڑھا دیا اور یہ نہ سمجھا کہ ان کے حضرت کے اسہال ہیضہ کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ مفتی صاحب نے اسہال کا ذکرتو کر دیا۔ لیکن ظلی وبروزی مصلحت کے پیش نظر اپنے مسیح موعود کی