لے جائے۔ سر ظفر اﷲ نے برہم ہوکر کہا یہ کتنا بڑا جرم ہے کہ ایسے نازک پھول کو اس خوفناک کانٹے کی گود میں ڈال دیا جائے۔ عرض کیاگیا مگر دونوں کا نکاح بھی ہوچکا ہے۔ ظفر اﷲ خاں نے اور زیادہ خفگی سے کہا طلاق کا بندوبست کر دو۔ عرض کیاگیا۔ ممکن ہے خود لڑکی آپ کی عمر کے آدمی سے رشتہ جوڑنا پسند نہ کرے اور کہے کہ آپ کی بیوی بھی موجود ہے اور اولاد بھی۔ ظفر اﷲ خاں نے جواب دیا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں گا اور انہوں نے یہی کیا بھی، تاکہ بشریٰ کو حاصل کر سکیں۔ دوسرے دن حضرت لڑکی کے گھر ہی پہنچے اور جب وہ چائے لے کر آئی… بشریٰ تو کیا کہتی ہے۔ دیکھ ظاہری شکل پر نہ جانا۔ میں آج بھی گھوڑا ہورہا ہوں اور طاقت سے بھرپور، بشریٰ کی نظریں شرم سے جھک گئیں اور چہرہ گلابی ہوگیا۔ پھر آہستہ سے کہنے لگی مالک میں تو حضور کی محض کنیز ہوں۔ یہ سنتے ہی ظفر اﷲ خاں نے جیب سے ایک ڈبیہ نکالی اور ہیرے کا کنٹھا نکال کر خود اپنے ہاتھ سے لڑکی کے گلے میں ڈال دیا۔ پھر اس کی انگلیوں پر ٹکٹکی باندھ دی۔ وہ سمجھ گئی اس نے ہاتھ آگے بڑھایا اور انگلی سے میرے نکاح کی انگوٹھی اتار دی۔ تین دن بعد ظفر اﷲ خاں لاہائی (ہالینڈ) جانے کے لئے تیار ہوگئے۔ جہاں وہ بین الاقوامی عدالت کے جج ہیں۔ جاتے وقت بشریٰ کی ماں اور بھائی کے ہاتھ میں ایک بڑی رقم دیتے ہوئے حاکمانہ انداز سے فرمانے لگے۔ دیکھو بشریٰ کی طلاق کا معاملہ جلد سے جلد انجام پاجانا چاہئے۔ خرچ کی پرواہ نہ کرنا۔ آج میری عقل کچھ کام نہیں دیتی۔ اب تک سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ کیا ہوا؟ اور سمجھ میں آئے بھی کیسے۔ میں نے اپنے وجود سے محبت کی تھی اور حق الیقین تھا کہ بشریٰ بھی مجھے سچے دل سے چاہتی ہے۔ ہم دونوں گھڑیاں گن رہے تھے کہ رخصتی کا دن آجائے اور ہم دونوں ایک جان ہو جائیں۔ میں خلیج فارس کے ایک علاقہ میں بہت دور تھا۔ مگر بشریٰ کے محبت بھرے خطوط سے ڈھارس بندھی رہتی تھی۔ بشریٰ ہر ہفتے کئی کئی خط لکھتی، تصویروں کے تراشے بھی بھیجتی۔ یہ دیکھئے تراشے میں ایک جوڑے کی تصویر ہے جو عروسی لباس پہنے ہیں اور یہ عبارت تراشے پر خود بشریٰ کے قلم نے لکھی ہے۔ اﷲ ہم دونوں کو کب ایسا ہی جوڑ پہنائیں گے۔ یہ دوسرا تراشہ ہے دو بچے کھڑے ہیں اور بشریٰ نے اس پر لکھا ہے۔ خدا ہمیں بھی ایسے ہی بچے دے گا۔ بہت سے خط سنا کر بد نصیب شوہر چپ ہوگیا اور کسی گہرے سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر قہقہہ اس کے منہ سے پھوٹ پڑا اور اس نے کہنا شروع کیا کوئی خیال بھی کر سکتا تھا کہ بشریٰ کے یہ سب جذبات سراسر فریب تھے اور وہ میرے دل سے صرف کھیل رہی تھی۔ کیا دولت کی طرح اس پر غالب آگئی۔ میں کیوں کر مان لوں۔ اس نے مجھے اس وقت قبول کیا تھا۔ جب میں بالکل فقیر تھا۔ میں قادیانی نہیں تھا۔ محض بشریٰ کو حاصل