کرنے کے لئے قادیانیت میں نے قبول کر لی۔ کیونکہ بشریٰ اور اس کا خاندان قادیانی بن چکا تھا۔ ظفر اﷲ خاں قادیانی مذہب کے ایک بڑے رکن ہیں اور میرے دل میں وہم بھی پیدا نہیں ہو سکتا تھا کہ یہی ظفر اﷲ خاں میرے دل کو اس طرح گھائل کر کے کچل ڈالیں گے اور قادیانیت کے امام اور امیرالمؤمنین اپنے ایک مرید ومعتقد کی زندگی اس بیدردی سے اجاڑ کر رکھ دیں گے۔ بیشک اس قسم کی کوئی بات بھی خیال نہیں آسکتی تھی۔ محمود قزاق نے سلسلہ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہ ۱۹۵۲ء میں میں نے کتنی کوشش کی کہ لبنان میں کوئی روزگار مل جائے۔ مگر کامیابی نہ ہونے پر میں شام چلا آیا اور ایک سکول میں مدرسی مل گئی۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنی خالہ سے ملنے دمشق آیا اور خالہ کی لڑکی بشریٰ کو دیکھتے ہی دل دے بیٹھا۔ دوسرے دن بشریٰ کے ساتھ سینما گیا فلم میں ہیرو اور ہیروئین کی شادی دکھائی جارہی تھی۔ بشریٰ میرے کان میں کہنے لگی یہ خوشی ہمیں کب نصیب ہوگی۔ ۱۹۵۴ء میں ہمارا نکاح ہوگیا۔ میں پھر خلیج فارس کی ایک ریاست میں چلاگیا تاکہ جلد سے جلد بہت ساروپیہ جمع کر کے لوٹوں اور اپنی دلہن کو رخصت کر لاؤں۔ بشریٰ کے خط دسمبر کے مہینے سے بند ہوگئے۔ آخر ایک خط بہت دنوں کے بعد آیا۔ اس کی عبارت یہ تھی۔
مولانا امیرالمؤمنین دمشق آئے۔ ظفر اﷲ خاں بھی تھے۔ کس قدر چاہتی تھی کہ تم بھی یہاں موجود ہوتے اور حضرت ظفر اﷲ کی زیارت کرتے۔ بشریٰ کے خط نے میرا دماغ اور بھی خراب کر دیا اور میں طرح طرح کے مطلب نکالنے لگا۔ دمشق پہنچتے ہی سیدھا خالہ کے گھر گیا۔ مگر بشریٰ کی انگلی میرے عقد کی انگوٹھی سے خالی تھی۔ میں نے کہا انگوٹھی اور چوڑیاں غائب ہیں۔ بشریٰ میں آزاد ہوں۔ تم میرے خالہ کے بیٹے ہو اس لئے تم سے شادی منظور نہیں کر سکتی۔ اس کے بھائی محمود نے مجھ سے کہا بشریٰ تمہیں پسند نہیں کرتی۔ تم طلاق کیوں نہیں دے دیتے۔ میں بے اختیار چلاّ اٹھا۔ ابھی قاضی کے پاس چلا طلاق نامہ لکھے دیتا ہوں۔ قاضی نے جب معاملہ سنا تو خفا ہوئے۔ میں نے غصہ سے بیخود ہو ہی رہا تھا۔ کہاگیا قاضی صاحب نکاح، فرضی یا (غرضی) تھا اور میں بشریٰ کو طلاق دے چکا ہوں۔ بعدمیں معلوم ہوا کہ ظفر اﷲ خاں نے ۴۵ہزار پونڈ میں بشریٰ کو خرید لیا ہے اور بیس ہزار پونڈ میں بشریٰ کے خاندان کے لئے ایک مکان دمشق کے محلہ بسنان الجھریٰ میں مول لے دیا ہے۔ پر سنا ظفر اﷲ چند ہی دنوں میں دمشق آرہے ہیں تاکہ بشریٰ سے شادی رچائیں اور میں نے طے کر لیا کہ اس شخص کو قتل کر ڈالوں گا۔ میں نے پستول خرید لیا۔ مگر بشریٰ کے خاندان نے ظفر اﷲ کو بھی خبر کر دی اس پر جلسے کا پروگرام روک دیا گیا اور آدھے گھنٹہ کے اندر ہی ظفر اﷲ خاں نکاح کر کے ہوائی جہاز سے بھاگ گئے۔ (اخبار الیوم مصر)