مرزاقادیانی کو محمدﷺ کے دربار میں جوتے پڑے اور دجال کا خطاب ملا
(اس کی اپنی کتاب میں)
’’ایک بزرگ اپنے ایک واجب التعظیم مرشد کی ایک خواب جس کو اس زمانہ کا قطب الاقطاب اور امام الابدال خیال کرتے ہیں اور یہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے پیغمبر خداﷺ خواب میں دیکھا اور آپؐ ایک تخت پر بیٹھے ہوئے تھے اور اردگرد تمام علماء پنجاب اور ہندوستان گویا بڑی تعظیم کے ساتھ کرسیوں پر بٹھائے گئے تھے۔ تب یہ شخص جو مسیح موعود کہلاتا ہے آنحضرتﷺ کے سامنے آکھڑا ہوا۔ جو نہایت کریہہ شکل اور میلے کچیلے کپڑوں میں تھا۔ آپ نے فرمایا یہ کون ہے۔ تب ایک عالم ربانی اٹھا (شاید محمود شاہ واعظ یا محمد علی بوپڑی) اور اس نے عرض کی کہ یا حضرت یہی شخص مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا یہ تو دجال ہے۔ تب آپؐ کے فرمانے سے اسی وقت اس کے سر پر جوتے لگنے شروع ہوئے۔ جن کا کچھ حساب اور اندازہ نہ رہا اور آپؐ نے ان تمام علماء پنجاب اور ہندوستان کی بہت تعریف کی۔ جنہوں نے اس شخص (مرزاقادیانی) کو کافر اور دجال ٹھہرایا تھا۔ آپؐ باربار پیار کرتے اور کہتے تھے کہ یہ میرے علماء ربانی ہیں جن کے وجود سے مجھے فخر ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۵۲،۵۳، خزائن ج۱۷ ص۱۷۶)
مرزابشیر الدین محمود کی اسلام کے خلاف گندی تحریر
۱… ’’اسلامی تعلیم کو معین صورت دینے کے لئے جو جامہ رسول کریمﷺ کے زمانہ کے لوگوں کے لئے پہنچایا گیا تھا وہ آج یقینا کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اب حالات مختلف ہیں۔ اسی طرح بعد میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے ان احکام کو جو صورت دی تھی وہ بھی آج کامیاب نہیں ہوسکی۔ غرض خلفاء نے اپنے زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے اسلام کے احکام کی تعبیر کی۔ مگر موجودہ زمانہ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کسی اور نظام کی ضرورت تھی اور اس نظام کے قیام کے لئے ضروری تھا کہ کوئی شخص خداتعالیٰ کی طرف سے آئے۔‘‘ (نظام نو ص۱۰۱)
۲… ’’نظام نو کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں قادیان میں رکھی جاچکی ہے۔ اب دنیا کو کسی اور نظام کی ضرورت نہیں۔‘‘ اب نظام نو کا شور مچانا ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں ؎
گیا ہے سانپ نکل
اب لکیر پیٹا کر
(نظام نو ص۱۱۱)