تھا۔ اس کو چاہئے تھا کہ مدینہ کو اور ان کے باشندوں کو جو کافر اور مرتد تھے چھوڑ دیتا… اور مدینے کے لوگوں کو قتل کر دیتا۔ اگر وہ مسلمان نہیں تھے… یا کیوں ہجرت نہ کی اور کیوں اپنے نفس کو دوسروں کے کناروں میں نہ ڈال دیا… بلکہ نفاق اور تقیہ کی طرف جھک گیا… کیا یہ فعل شیر خدا کا ہے… تم نے خاتم الانبیائﷺ کی تحقیر کی اور کہا کہ اس کے ساتھ دو کافر دائیں بائیں بھائیوں اور بیٹوں کی طرح دفن کئے گئے… اور ہم تم سے اے نجفی گمراہ ایک بات پوچھتے ہیں تیرے پر سوال بھاری نہ ہو کیا تو اس بات پر راضی ہوسکتا ہے کہ تیری ماں دو زناکار عورتوں کے درمیان دفن کر دی جائے۔ یا تیرا باپ دو مجذوم بدکاروں کے درمیان گاڑا دیا جائے۔ اگر تو اس سے کراہت کرتا ہے تو تو کس طرح اس بات پر راضی ہوگیا کہ سید الکونین دو کافروں ملعونوں کے درمیان دفن کر دیا جائے… خداتعالیٰ ہلاک کرے اے جھوٹ اور دروغ کی حمایت کرنے والو… علیؓ کی طرف نظر کرو کہ جب اس کو خلافت کا منصب ملا۔ پس اس نے ان دونوں اماموں کی قبروں کو آںحضرتﷺ کے روضہ سے علیحدہ نہ کیا۔ پس اگر وہ یہ گمان کرتا تھا کہ وہ دونوں مؤمن پاک دل نہیں ہیں تو کیونکر ان کی قبروں کو آنحضرتﷺ کی قبر کے ساتھ رہنے دیا۔ تمام گناہ علی کی گردن پر ہے… یہی شیر خدا اور اسد اﷲ ہے… اور تم آنحضرتﷺ کی بیویوں امہات المؤمنین کو لعنت سے یاد کرتے ہو اور گمان کرتے ہو کہ خدا کی کتاب میں کچھ زیادہ اور کم کیاگیا ہے اور کہتے ہو کہ وہ بیاض عثمان ہے اور خدا کی طرف سے نہیں ہے… تم نے علی کی تصویر ایسی ظاہر کی کہ گویا وہ سب سے زیادہ نامرد تھا اور نعوذ باﷲ شیطان کے تابع تھا…
پس اے نجفی سے لومڑی کیا تو مجھے ڈراتا ہے… کیا تو چند روز ابلیس کی شاگردی میں رہا ہے… تیرے ملک (ایران) میں قحط پڑ گیا۔ یاتجھ پر فقر وفاقہ غالب آگیا۔ پس تو ان لوگوں کے ملک کی طرف دوڑا جو رزق کی کشادگی رکھتے ہیں۔ تاکہ گداگروں کی طرح چلا کر بھیک مانگ کر گزارہ کرے… تو کمینوں اور سفیہوں سے تھا… ہم اس خناس کے فتنہ سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ وہ خود سب اور توہین کا موجب نہیں۔ بلکہ اس کو غزنویوں میں سے ایک اور شیطان نے سکھایا ہے… گویا وہ جوتوں کے خواہش مند ہیں اور ان کا سر فریاد کر رہا ہے۔ تاکہ مغلوں کے ساتھ کو فتہ کیا جائے… اور میں جانتا ہوں کہ وہی مفسد اور اظلم امام ہے… بکواس سے باز نہ آئے۔ پس میں نے جان لیا کہ وہ مردود مخذوں اور بدبخت اور محروم ہیں۔‘‘ (یہ عبارت بھی مرزاقادیانی کی کتاب (حجتہ اﷲ ص۳۰تا۵۴، خزائن ج۱۷۸تا۲۰۲) سے نقل کی ہے)