۲… ’’یہ شیخ نجفی شیعہ ہے اور اس نے ایک عربی میں خط میری طرف لکھا ہے… جس نے سب وشتم کو کمال تک پہنچایا ہے۔‘‘ (حجۃ اﷲ ص۲۷، خزائن ج۱۲ ص۱۷۵)
۳… ’’یہ وہ لوگ ہیں جو ان کی زبان سے خاتم الانبیائﷺ بھی بچ نہیں سکے۔ بلکہ وہ خدا بھی جو احکم الحاکمین ہے اور نہ رسول اﷲﷺ کے خلیفے ان کی زبان سے بچے اور نہ ازواج آنحضرت جو امہات المؤمنین تھیں۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ ان لوگوں نے اصدق الصادقین پر کس طرح ظن بد کیا اور استخلاف کی پیش گوئی کی تکذیب کی اور کہا کہ علی مظلوم ہے۔ پس ان لوگوں نے اس عمارت کو مسمار کرنا چاہا۔ جس کو خدا نے بنایا اور قرآنی اخبار کی تکذیب کی اور یہ صریح ظلم ہے اور ان لوگوں نے کہا کہ علی تمام عمر نفاق کے لقوہ میں مبتلا رہا اور اس کی طینت میں راست گوئی کی جرأت پیدا نہیں کی گئی تھی اور اس نے ظاہر وباطن ایک بنانے کا دودھ نہیں پیا تھا۔ جب کفار کو خلافت ملی تو انکار نہ کیا۔ بلکہ اطاعت کی اور پیٹھ اور پنڈلی کو معہ اپنے رفیقوں کے ان کے لئے باندھا اور اسلام کا امر مشکل ہوگیا۔ (حجۃ اﷲ ص۳۱، خزائن ج۲۱ ص۱۷۹)
اس نے ان کی بدگوئی نہ کی۔ بلکہ ان کی تعریف میں شعر بنائے۔ یہاں تک کہ مر گیا۔ کیا یہی شیعوں کا شیر ہے؟ اور کہتے ہیں کہ اس نے اپنی ماں صدیقہ کا مقابلہ کیا… اور اپنی ماں سے نیکو کار نہیں تھا اور بلکہ جبار، عاق اور شقی تھا۔ نفاق کو اختیار کیا۔ سختی اور بھوک پر صبر نہ کر سکا اور نفس کی پیروی کی… نفاق ہر قدم میں اختیار کیا۔ جس نے بخشش کے ساتھ احسان کیا۔ اس کو سجدہ کیا۔ اگرچہ وہ دین اور تقویٰ کا دشمن ہی کیوں نہ ہو اور جب مال دنیا کا اس پر پیش کیاگیا تو اپنے نفس کو کہا کہ لے لے… اور انعام کے لئے ان کے پیچھے نماز پڑھتا رہا نہ کہ نماز کی برکتوں کے لئے… صحابہ میں اسے اس کے ساتھ کوئی نہ آتا اور نہ اسلام کے لشکر میں سے اس کے ساتھ کوئی ہوا۔ یہاں تک کہ بیقرار اور ناکام ہوکر ابوبکر صدیق کے دروازے پر آیا اور جانتا تھا کہ یہ زندیقوں کی طرح ہے۔ مگر پیٹ نے اس کو اس کی طرف جانے کے لئے بیقرار کیا اور اپنے معدے کے تنور کا ایندھن اس کے پاس پایا اور عمر نے اس کی بعض اولاد کو قتل کر دیا۔ مگر پھر بھی وہ اس کے پاس جانے سے باز نہ آیا اور ابوبکر نے باغ فدک کے معاملہ میں اس کو درد پہنچایا۔ مگر پھر بھی اس کو غیرت نہ آئی اور ابوبکر کے دروازے پر اعتکاف کرنے والوں کی طرح پڑا رہا… اور ان کے دانتوں کا فضلہ ہضم کرتا رہا اور عار رکھنے والوں کی طرح ان سے علیحدہ نہ ہوا۔ بلکہ ان کی خدمت میں اپنی آبرو کو بٹہ لگاتا رہا اور اپنی حاجت ان کے آگے پیش کرتا رہا اور ان کے دروازے پر سوالیوں کی طرح پھرتا