نکلے گا۔ تو عرق کیاگیا اور جلایا گیا… تیرے جیسا آدمی کتے کی طرح بھونکتا ہے اور فریاد کرتا ہے… ہم نے تنبیہ کے لئے تجھے طمانچہ مارا ہے۔ مگر تو نے طمانچہ کو کچھ نہ سمجھا۔ کاش ہمارے پاس مضبوط اونٹ کے چمڑے کا جوتا ہوتا… ان کا کتے کی طرح حملہ اور سانپ کی طرح پیچ وتاب اور بھیڑئیے کی طرح عادتیں اور خرگوش کا دل… اے لعنت کا شکار، لعنت کا ذکر چھوڑ دے۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بکواس کے بعد تیرا کیا حال ہوا… تو خنزیر کی طرح حملہ کرتا ہے اور گدھوں کی طرح آواز کرتا ہے اور تونے بدکار عورت کی طرح رقص کیا ہے… میں تمہیں بھیڑئیے کی طرح دیکھتا ہوں یا کتے کی طرح… اے شیخ شقی سوچ انسان کی طرح فکر اور گدھے کی طرح آواز نہ کر… انہوں نے مجھے کتے کے دانت پیسنے والے کی طرح تکلیف دی ہے… اے مردار کے کتے کیا تو بھیڑئیے کی طرح ڈراتا ہے… میں نے بہت لئیم دیکھے ہیں۔ مگر تیرے جیسا بدخو نہیں دیکھا… اور تو کچھ نہیں۔ مگر ایک چڑیا ہے… پس اے ابلیس تو سنگسار کیا جائے گا… تو ان لیموں کا وارث بن گیا ہے۔ جو تمہارے سے پہلے گذرے ہیں… تو ایک ریتلے اور تہ بہ تہ ریت کے جنگل میں مرتا ہے… میں تیرے منحوس سر کو عقل سے خالی دیکھتا ہوں… میں گونگوں کی طرح تمہیں دیکھتا ہوں۔ یا جنگ کے گدھوں کی طرح اور تمہاری زبان ایسی کھوئی گئی۔ جیسا کہ عورت کو طلاق دی جاتی ہے۔‘‘ (مرزاقادیانی کی کتاب حجتہ اﷲ سے نقل کیا ہے۔ ناقل!)
(حجتہ اﷲ ص۵۴تا۹۵، خزائن ج۲۲ ص۲۰۲تا۲۴۳)
مجاہدین ۱۸۵۷ء کے خلاف اور مولویوں کے خلاف بکواس
’’جب ہم ۱۸۵۷ء کی سوانح کو دیکھتے ہیں اور اس زمانہ کے مولویوں کے فتوؤں پر نظر ڈالتے ہیں تو ندامت سے سر جھک جاتا ہے۔ جنہوں نے مہریں لگادیں تھیں۔ جو انگریزوں کو قتل کر دیا جائے۔ یہ کیسے مولوی تھے اور کیسے فتوے تھے۔ ان لوگوں نے چوروں، قزاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن گورنمنٹ پر حملہ کیا تھا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۲۸ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۴۹۰)
’’ہم پر اور ہماری ذات پر فرض ہے کہ ہم گورنمنٹ برطانیہ کے ہمیشہ شکرگزار رہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۳۲، خزائن ج۳ ص۱۶۶)
’’دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔‘‘
(نجم الہدیٰ ص۵۳، خزائن ج۱۴ ص۵۳)