ابن مریم کا منکر کافر ہو اور مرزاقادیانی کا منکر کیوں کافر نہ ہو؟
پس کس طرح مان لیں کہ خدا تو ایک شخص کو کہے کہ ’’انت منی بمنزلۃ ولدی انت منی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی‘‘ لیکن وہ شخص ایسا معلوم ہو کہ اس کا ماننا قریباً قریباً برابر ہو؟ پھر ہم کس طرح مان لیں کہ ایک شخص کے انکار سے یہودی مغضوب علیہم بن جائے۔ لیکن اس کو ماننا ایمانیات میں سے نہ ہو؟ پھر ہم کس طرح مان لیں کہ ایک شخص پکار پکار کر کہے ؎
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے
لیکن ابن مریم کا منکر تو کافر ہو اور غلام احمد (قادیانی) کا منکر کافر نہ ہو اور پھر ہم کس طرح مان لیں کہ ایک شخض کو اﷲتعالٰ باربار اپنے الہام میں رسول اور نبی کہہ کر پکارے لیکن وہ ’’لا نفرق بین احمد من رسلہ‘‘ کے لفظ میں شامل نہ ہو اور اس کا منکر ’’اولئک ہم الکافرون حقا‘‘ سے باہر ہو۔ (کلمتہ الفصل ج۱۴ ص۱۷۴،۱۷۵، نمبر۴)
ہمارا فرض
ہمارا یہ فرض ہے کہ غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خداتعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔ یہ دین کا معاملہ ہے۔ اس میں کسی کو اپنا اختیار نہیں کہ کچھ کر سکے۔ (انوار خلافت ص۹۰)
مسلمان اور یہودو نصاریٰ سب مساوی ہیں
غیراحمدیوں کی ہمارے مقابلہ میں وہی حیثیت ہے جو قرآن کریم ایک مؤمن کے مقابلہ میں اہل کتاب کی قرار دے کر یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک مؤمن اہل کتاب عورت کو بیاہ لا سکتا ہے۔ منکر مؤمنہ عورت کو اہل کتاب سے نہیں بیاہ سکتا۔ ایسے ایک احمدی غیراحمدی (مسلمان) عورت کو اپنے حبالۂ عقد میں لا سکتا ہے۔ مگر احمدی (مرزائی) عورت شریعت اسلام (قادیانی شریعت) کے مطابق غیر احمدی (مسلمان) مرد کے نکاح میں نہیں دی جاسکتی۔
غیر احمدی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے۔ کیونکہ اہل کتاب عورت سے بھی نکاح جائز ہے۔ بلکہ اس میں تو فائدہ ہے کہ ایک اور انسان ہدایت پاتا ہے۔ اپنی لڑکی کسی غیراحمدی کو نہ دینی چاہئے۔ اگر ملے تو بے شک لے لو۔ لینے میں حرج نہیں اور دینے میں گناہ ہے۔
(الحکم ۱۴؍اپریل ۱۹۰۸ئ، بحوالہ الفضل قادیان ج۸ نمبر۴۵، مورخہ ۱۶؍دسمبر ۱۹۲۰ئ)