مخلوق کی بہتری چاہتا ہے اور اس کو زمین پر حکمراں بناتا ہے جو اس کا اہل ہوتا ہے۔ پس ہم پھر کہتے ہیں کہ ہم خوش ہیں۔ کیونکہ خدا کی بات پوری ہوتی ہے اور ہمیں امید ہے کہ برٹش حکومت کی توسیع۱؎ کے ساتھ ہمارے (مرزائیوںکے) لئے اشاعت اسلام (مرزائیت) کا میدان بھی وسیع ہو جائے گا… اور غیر مسلم کو مسلم بنانے کے ساتھ ہم مسلمانوں (غیر مرزائیوں) کو پھر مسلمان کریںگے۔ (اخبار الفضل قادیان نمبر۱۰۳، مورخہ ۱۱؍فروری ۱۹۱۵ئ)
عراق کے فتح کرنے میں احمدیوں نے خون بہائے
عراق کے فتح کرنے میں احمدیوں نے خون بہائے اور میری (میاں محمود احمد قادیانی) تحریک پر سینکڑوں آدمی بھرتی ہوکر چلے گئے۔ لیکن جب وہاں حکومت قائم ہوگئی تو گورنمنٹ نے یہ شرط تو کروائی کہ پادریوں کو عیسائیت کی اشاعت کرنے میں کوئی روک نہیں ہوگی۔ مگر احمدیوں کے لئے صرف اس قسم کی شرط نہ رکھی بلکہ احمدی اگر اپنی تکالیف پیش کرتے ہیں تو بھی عراق کے ہائی کمشنر اس میں دخل دینے کو اپنی شان سے بالاترسمجھتے ہیں۔
(مندرجہ اخبار الفضل قادیان ج۱۱ نمبر۱۷ مورخہ ۳۱؍اگست ۱۹۲۳ئ)
محولہ عبارات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مرزائیوں کا مذہبی نصب العین یہ ہے کہ دنیائے اسلام کی حکمرانی وجہاں بانی انگریزوں کو ملے۔ جس میں یہ آزادی سے ارتداد کی تبلیغ کر سکیں اور یہ مرزائیوں کا ملی فرض ہے کہ دنیائے اسلام سے جہاد کے اثرات زائل کئے جائیں اور ہر میدان میں انگریزوں کا تعاون کیا جائے۔ ’’قاتلہم اﷲ انی یوفکون‘‘
فتح بغداد (گورنمنٹ برطانیہ قادیانیوں کی تلوار ہے)
حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) فرماتے ہیں کہ میں وہ مہدی معہود ہوں اور گورنمنٹ برطانیہ میری وہ تلوار ہے۔ جس کے مقابلہ میں علماء کی کچھ پیش نہیں جاتی۔ اب غور کرنے کا مقام ہے کہ احمدیوں کو اس فتح (فتح بغداد) سے کیوں خوشی نہ ہو۔
عراق، عرب ہو یاشام۔ ہم ہر جگہ اپنی تلوار کی چمک دیکھنا چاہتے ہیں۔ فتح بغداد کے وقت ہماری فوجیں مشرق سے داخل ہوئیں۔ دیکھئے کس زمانہ میں اس فتح کی خبر دی گئی؟ ہماری
۱؎ اس سے مراد یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک پر برطانیہ کا پورا قبضہ ہو جائے تو پھر ہم بھی مرزائی ارتداد کا کام وسیع پیمانہ پر کر سکیںگے۔