اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں آپ کو خدا حافظ کہتا ہوں۔ آپ یقین رکھیں کہ ہندوستان سے جانے کے بعد آپ کی جماعت سے میری دلچسپی اور ہمدردی کا سلسلہ منقطع نہ ہوگا۔ بلکہ بدستور جاری رہے گا اور میری ہمیشہ یہی آرزوں رہیں گی کہ مسرت وخوشحالی پوری طرح آپ نیز آپ کے متبعین کے لئے شامل حال رہے۔ (بحوالہ قادیانی مذہب ص۶۰۷)
برطانیہ کا جاسوس ہونے کا الزام
جناب عالی! جماعت احمدیہ کا سیاسی مسلک ایک مقررہ شاہراہ ہے۔ جس سے وہ ادھر ادھر نہیں ہوسکتے۔ وہ حکومت وقت کی فرمانبرداری اور امن پسندی ہے۔ اگر خداتعالیٰ کا رسول دنیا کو امن دینے کے لئے نہیں آتے تو یقینا دنیا کے لئے رحمت نہیں کہلا سکتے۔ بعض لوگوں نے سلسلہ احمدیہ کی اس تعلیم سے یہ دھوکہ کھایا ہے کہ شاید جماعت احمدیہ حکومت ہند سے سازباز رکھتی ہے۔ لیکن جناب سے زیادہ کوئی اس امر کی حقیقت سے واقف نہیں ہوسکتا کہ جس قدر شدت سے یہ الزام لگایا جاتا ہے اتنا ہی یہ الزام بے بنیاد ہے۔ جناب کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ یہ الزام نہ صرف ہندوستان میں لگایا جاتا ہے۔ بلکہ بیرون ہند میں بھی۔ چنانچہ چند سال ہوئے ایک احمدی عمارت کی بنیاد کے موقع پر جرمن وزیر تعلیم نے شمولیت کی تو اس کے خلاف لوگوں نے یہ الزام لگایا کہ حکومت برطانیہ کی جاسوس جماعت کے ساتھ اس نے اظہار تعلق کیا ہے اور مجلس وزرائے اس کے اس فعل پر جواب طلبی کی۔ (اخبار الفضل قادیان نمبر۱۱۸، ج۲۱، مورخہ ۳؍اپریل ۱۹۳۴ئ)
سیاسی شبہات
جناب عالی! گو بعض وجوہ سے جن کی تفصیل میں ہم نہیں پڑنا چاہتے۔ بعض برطانوی حکومت یہ شبہ ظاہر کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ سیاسیات میں خلاف اپنی سابقہ روایات کے حصہ لینے لگ گئی ہے۔ لیکن چونکہ ہماری وفاداری مذہبی جذبات پر مبنی ہے۔ ہم ان شبہات کی پروا نہیں کرتے۔ ہم نے جب کبھی کوئی کام کیا ہے۔ دیانت داری سے کیا ہے۔
(اخبار الفضل قادیان ج۲۱ نمبر۱۱۸، مورخہ ۳؍اپریل ۱۹۳۴ئ)
غلام احمد کی سیاسی زندگی کے دو دور ختم ہوئے۔ اب تیسرا دور شروع کیا جاکر چند نمونوں پر ختم کیا جائے گا۔ ناظرین سمجھ چکے ہوں گے کہ انگریز اپنے خود کاشتہ پودا کی کس حکمت عملی سے آب یاری کرتا ہوا چلا جارہا ہے اور کس طرح اپنی کام جوئیوں کا آلہ بنا کر اپنی خبیث جڑوں کو مضبوط کر رہا ہے۔