وزیر خارجہ حکومت پاکستان) سے ہاتھ ملا کر اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔ وائسرائے کے ساتھ ان کے پرائیویٹ سیکرٹری اور ایڈی کانگ بھی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
چوہدری ظفر اﷲ خاں نے ایڈریس پڑھا۔ اڈریس ایک چاندی کے کاسکٹ میں رکھ کر حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے پیش کیا اور مفتی محمد صادق صاحب نے سلسلہ (مرزائیہ) کی چند کتابیں جو مخملی خریطے میں تھیں ایک ایک کر کے پیش کیں اور ہر ایک کتاب کے پیش کرتے وقت اس کتاب کا مختصر ذکر کیا۔ مثلاً یہ وہ لیکچر ہے جو حضرت خلیفہ المسیح ثانی زیدہ اﷲ نے ولایت میں پڑھے جانے کے واسطے لکھا تھا۔ وائسرائے بہادر نے کتابوں کو شکریہ کے ساتھ قبول کیا اور فرمایا کہ میں ان کو پڑھوں گا۔ اس کے بعد وائسرائے نے کھڑے ہوکر اڈریس کا جواب دیا۔ اس کے بعد چوہدری ظفر اﷲ نے ایک ایک ممبر کو الگ کر کے پیش کیا۔ وائسرائے بہادر نے سب کے ساتھ ہاتھ ملایا اور فوجی ممبران وفد سے جنگی حالات دریافت کرتے رہیں اور بعض کو تمغے دئیے۔ (اخبار الفضل قادیان مورخہ ۸؍مارچ ۱۹۲۷ئ، ج۱۴ نمبر۷۱)
غیر متزلزل وفاداری
ہم ضمناً اس جگہ یہ بات کہنے سے بھی نہیں رک سکتے۔ گو گورنمنٹ کی دیرینہ بد ظنی جو اسے ہمارے سلسلہ کے متعلق تھی وہ تو ایک حد تک دور ہوچکی ہے اور سلسلہ احمدیہ کی غیر متزلزل وفاداری کے غیر معمولی کارناموں نے حکام حکومت برطانیہ کو اس امر کے تسلیم کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ یہ سلسلہ سچی وفاداری کا ایک بے نظیر نمونہ ہے۔
(مندرجہ اخبار الفضل قادیان مورخہ ۸؍مارچ ۱۹۲۷ئ، ج۱۴ نمبر۱۷)
سلسلہ دوستی ہندوستان سے جانے کے بعد بھی باقی رہے گا
(ہزار کسیلنسی وائسرائے ہند لارڈ ارون کا جواب میاں محمود احمد خلیفہ قادیان کے نام) جناب محترم! آپ نے نہایت مہربانی سے مجھے کتاب بھجوائی ہے اور جو پورہولینس کے نمائندہ وفد نے کل مجھے دی اس کے اور نیز اس خوبصورت کاسکٹ کے لئے جس میں کتاب رکھی ہوئی تھی آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ ان تمام کاسکٹوں سے جو میں نے آج تک دیکھے ہیں بے نظیر ہے اور جماعت کے ممبروں کے ساتھ مختلف مواقع پر میری جو ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں یہ کاسکٹ ان کے لئے ایک خوشگوار یا دگار کا کام دے گا۔ یہ امر میری بے حد دلچسپی کا باعث ہے کہ آپ کے تقریباً دس ہزار پیروؤں نے اس خوبصورت تحفہ کی تیاری میں حصہ لیا ہے۔