مرزاقادیانی خدا کی بیوی
مرزاقادیانی کے ایک خاص مرید قاضی یار محمد صاحب اپنے ٹریکٹ نمبر۳۴ موسوم بہ (اسلامی قربانی ص۱۲ مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر) میں لکھتے ہیں۔ ’’حضرت مسیح موعود نے ایک موقعہ پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی ہے کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اﷲتعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا۔‘‘ نعوذ باﷲ!
مرزاقادیانی کا حیض
’’بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے، یا کسی پلیدی اور ناپاکی پر اطلاع پائے۔ مگر خداتعالیٰ تجھے اپنے الہامات دکھلائے گا۔ جو متواتر ہوںگے اور تجھ میں حیض نہیں۔ بلکہ وہ بچہ ہو گیا ہے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۴۳، خزائن ج۲۲ ص۵۸۱)
مرزاقادیانی کو دردزہ
’’اور پھر مریم کو جو مراد اس عاجز سے ہے۔ دردزہ تنہ کھجور کی طرف لے آئی۔‘‘
(کشتی نوح ص۴۷، خزائن ج۱۹ ص۵۱)
(بقیہ حاشیہ) دو الفاظ ’’ابن الوقت‘‘ اور ’’ابن السبیل‘‘ پیش کئے جاسکتے ہیں اور عیسائیوں کا عذر یہ ہے کہ ابن اﷲ سے یہ مراد ہے کہ مسیح کو خدا کے ساتھ ایک ایسا تعلق ہے جو مجاز کے طور پر اور روحانی اعتبار سے ابنیت کے نام سے موسوم ہے۔ جیسا کہ مولانا روم نے بھی فرمایا ہے :’’اولیاء اطفال حق اند اے پسر‘‘
مگر یہاں مرزاقادیانی خود کو ولد اﷲ کہتے ہیں۔ حالانکہ لفظ ولد اور سب الفاظ جو اس سے مشتق ہیں۔ مثلاً والد، مولود، تولید، میلاد، ولادت وغیرہ۔ حقیقی پیدائش کا مفہوم رکھتے ہیں۔ گویا مرزاقادیانی خدا کے صلبی اور حقیقی بیٹے ہیں اور یہ کفر ہے۔ اس لئے قرآن پاک نے جہاں خدا کے بیٹا ہونے کی تردید کی ہے۔ یہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ’’لم یلد ولم یولد‘‘ کہ نہ کسی نے اس کو جنا۔ نہ اس نے کسی کو جنا ہے۔ نہ وہ کسی کا والد ہے اور نہ مولود۔ اس صریح نص قرآنی کے خلاف مرزاقادیانی کو الہام ہوتا ہے کہ اے میرے جنے ہوئے میری بات سن۔ اب ظاہر ہے کہ یہ اس خدا کا کلام تو ہو نہیں سکتا۔ جو سورۂ اخلاص میں اپنی شان ’’لم یلد ولم یولد‘‘ کے الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ بلکہ جس طرح ان دو الہامات میں بعد المشرقین ہے۔ اسی طرح ان کے الہام کرنے والے بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں ایک الہام ربانی ہے اور دوسرا القائے شیطانی۔ مرزائی بھائیو! کس منہ سے عیسائیوں پر اعتراض کرتے ہو کہ وہ مسیح کو ابن اﷲ کہتے ہیں۔ دوسرے کی آنکھ کا تنکا تو تمہیں نظر آجاتا ہے۔ مگر اپنی آنکھ کے شہتیر کی خلش تمہیں نہیں ہوتی۔