مرزاقادیانی کا استقرار حمل
’’مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا۔‘‘ (کشتی نوح ص۴۶،۴۷، خزائن ج۱۹ ص۵۰)
مرزاقادیانی خدا کے پانی سے۱؎
’’انت من مائنا‘‘ اے مرزا تو ہمارے پانی سے ہے۔
(انجام آتھم ص۵۵، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
۱؎ مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ: ’’اکثر پیشین گوئیوں میں ایسے ایسے اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں کہ قبل از ظہور خود انبیاء کو بھی جن پر وہ وحی نازل ہوتی ہے سمجھ میں نہیں آسکتے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۴۰، خزائن ج۳ ص۱۷۱) اسی طرح (براہین احمدیہ ص۵۵۶) پر یہ الہام درج ہے۔ ’’رب اغفر وارحم من السماء ربنا عاج‘‘ جس کے معنی مرزاقادیانی پر نہیں کھلے۔ پھر عبرانی زبان میں الہام ہوتا ہے اور جناب ملہم اس کے مطلب پر مطلقاً مطلع نہیں ہوتے۔
(براہین احمدیہ ص۵۵۳، خزائن ج۱ ص۶۶۲)
اس کے علاوہ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’بعض دفعہ الہامات کے الفاظ مستعملہ کا مفہوم مجہول ہوتا ہے اور اس کی تفہیم کے لئے کتب لغت کی مدد لینی پڑتی ہے۔ لیکن بسا اوقات لغت بھی کچھ مدد نہیں دے سکتی۔‘‘ کئی پیش گوئیاں اور الہامات ایسے ہوتے ہیں جن کا حقیقی مفہوم کچھ اور ہوتا ہے اور مرزاقادیانی کچھ اور سمجھ لیتے ہیں۔ (ازالہ اوہام ص۳۹۸، خزائن ج۳ ص۳۰۶) اس لئے لازم نہیں کہ ہر حالت میں مرزاقادیانی کی تشریح درست اور صحیح تسلیم کر لی جائے۔
پس یہاں جو لکھا ہے کہ اے مرزا تو میرے پانی سے ہے۔ ہماری سمجھ میں تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اے مرزاقادیانی تو میرے نطفہ سے ہے اور ایسا سمجھنے کے لئے ہمارے پاس زبردست قرینہ ہے۔ کیونکہ مرزاقادیانی خدا کی بیوی بنے۔ انہیں حیض آنے لگا۔ استقرار حمل ہوا۔ دردزہ نے بے چین کردیا۔ بچہ جنے، خداتعالیٰ نے معاذ اﷲ ان سے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا۔ جب یہ سب باتیں سچ ہیں تو نطفۃ اﷲ ہونا کون سا دشوار ناقابل قبول اور خلاف عقل امر ہے کہ کوئی مرزائی برہم ہو، ناک بھنویں چڑھائے، یا شرمندہ ہو۔ ہاں اگر کہا جائے کہ یہ سب استعارات ہیں اور روحانی اور مجازی اعتبار سے یہ سب کچھ کہاگیا ہے تو چلو ہمیں اس میں اصرار نہیں۔ ہم بھی مرزاقادیانی کو مجاز کے رنگ میں نطفۃ اﷲ کہتے ہیں۔