ہوئی اور اکتوبر ۱۹۰۲ء میں ختم ہوئی) آپ کا عقیدہ یہی تھا کہ آپ کو حضرت مسیح پر جزوی فضیلت ہے اور آپ کو جو نبی کہا جاتا ہے تو یہ ایک قسم کی جزوی نبوت ہے اور ناقص نبوت، لیکن بعد میں جیسا کہ نقل کردہ عبارت فقرہ دو اور تین سے ثابت ہے۔ آپ کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوا آپ ہر ایک شان میں مسیح سے افضل ہیں… اور کسی جزوی نبوت کے پانے والے نہیں بلکہ نبی ہیں… ہاں ایسے نبی جن کو آنحضرتﷺ کے فیض سے نبوت ملی۱؎۔ پس ۱۹۰۲ء سے پہلے کی کسی تحریر سے حجت پکڑنا بالکل جائز نہیں ہوسکتا۔‘‘ (القول الفصل ص۲۴، از محمود احمد قادیانی)
بعد کو پتہ چلا کہ ۱۹۰۱ء میں مرزاقادیانی کی نبوت کا دور شروع ہوچکا تھا۔ چنانچہ پھر میاں محمود احمد قادیانی تصحیح نامہ کرتے ہیں: ’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ۱۹۰۱ء میں آپ نے اپنے عقیدے میں تبدیلی کی ہے اور ۱۹۰۰ء ایک درمیانی عرصہ ہے جو دونوں خیالات کے درمیان برزخ کے طور پر حد فاصل ہے… پس یہ ثابت ہے کہ ۱۹۰۱ء کے پہلے وہ حوالے جن میں آپ نے نبی ہونے سے انکار کیا ہے۔ اب منسوخ ہیں اور ان سے حجت پکڑنی غلط ہے۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۱۲۱)
حاصل کلام یہ ہے کہ مرزاقادیانی کی مذہبی زندگی کے تین مستقل دور ہیں۔ پہلے دور میں ہمدرد اسلام، دین دار مسلمان، دوسرے دور میں مہدی معہود اور مسیح موعود، اور تیسرے دور میں کھلم کھلا نبی اور رسول اﷲ۔ (للمرتب)
واضح ہو کہ پہلے دور سے دوسرے دور تک مرزاقادیانی کو صرف چار منازل پیش آئے۔ یعنی اوّل حضرت مسیح سے ایک فطری مناسبت محسوس ہوئی۔ اس کے بعد مرزاقادیانی مثیل بنے۔ پھر مریم بنے۔ پھر ابن مریم بن کرمسیح موعود ہوگئے۔ لیکن تیسرے دور تک جانے میں بہت مراحل طے کرنے پڑے۔ یعنی ولایت، مجددیت، محدثیت، لغوی نبوت، اعزای نبوت، اصطلاحی نبوت، جزوی نبوت، ظلی نبوت، بروزی نبوت، امتی نبوت، بالآخر خالص نبوت کہ اس کی وحی قرآن کریم کے مساوی اور ہم پلہ قرار پائی۔ (جیسا کہ آئندہ آئے گا) پھر مکمل نبوت کے اس کے بغیر نبوت محمدی ناقص رہ جائے۔ (توبہ توبہ) اور لازمی نبوت کہ اس کے انکار سے ہر مسلمان کافر بن جائے۔ بلکہ تمام ناواقف اور بے خبر مسلمان بھی اس کی برکت سے خود بخود کافر ہو جائیں…
۱؎ حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ وغیرہم من الانبیاء علیہم السلام سبھی کو آنحضرتﷺ کے طفیل نبوت ملی ہے تو گویا وہ سب انبیاء کے برابر ٹھہرے۔