اس غیر متوقع واقعہ سے قصر قادیانیت پر ایک ناقابل برداشت گولہ پڑا۔ اگر مرزاقادیانی کو صادق مانتے ہیں تو معذب ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ ہیضہ کے عذاب میں مرا۔ اگر کاذب گردانتے ہو تو پھر ’’لعنۃ اﷲ علے الکاذبین‘‘ کا مصداق ٹھہرتے ہیں۔
بات وہ منہ سے کہی ہے جو بنائے نہ بنے
بوجھ وہ سر پہ لیا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
تین دور
مرزاغلام احمد قادیانی کی علمی اور مذہبی زندگی کے تین نمایاں دور نظر آتے ہیں۔
پہلا دور… وہ امت محمدی کے مبلغ کی حیثیت سے ۱۸۸۰ء میں شروع کرتے ہیں۔ جب کہ براہین احمدیہ کے سلسلے میں وہ اپنی دینی خدمت گذاری کا اعلان کرتے ہیں۔ لیکن خیالات میں ترقی کرتے کرتے دس سال کے بعد (۱۸۹۱ء میں) وہ مسیح موعود ہونے کا باضابطہ اعلان کرتے ہیں۔
یہاں سے دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ اسی طرح مزید ترقی کرتے کرتے دس سال ۱۹۰۱ء میں وہ باقاعدہ نبی کے مرتبہ کو پہنچ جاتے ہیں اور یہاں سے تیسرا دور شروع ہوتا ہے۔ جو آٹھ سال میں ترقی کرتے کرتے نبوت کے انتہائی مقام تک پہنچ جاتا ہے۔
قادیانی صاحبان بالعموم صرف آخری دو دوروں پر زور دیتے ہیں۔ لیکن فی الجملہ پہلا دور بھی قابل شمار ہے۔ پہلے دور کے اختتام اور دوسرے دور کے آغاز کا مرزاقادیانی خود یوں اعلان فرماتے ہیں: ’’پھر میں تقریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز سے بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے بڑی شدومد سے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے رسمی عقیدے پر جما رہا۔ جب بارہ برس گذر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے۔ تب تواتر سے اس بارے میں الہامات شروع ہوئے کہ تو ہی مسیح موعود ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳)
تیسرا دور جس میں مرزاقادیانی بخیروخوبی نبی بن جاتے ہیں۔ اس کی تصریح مرزاقادیانی کے صاحبزادے میاں محمود احمد خلیفہ قادیانی یوں فرماتے ہیں: ’’غرض کہ مذکورہ بالا حوالہ سے صاف ثابت ہے کہ تریاق القلوب کی اشاعت تک (جو کہ اگست ۱۸۹۹ء سے شروع