مرزاغلام احمد قادیانی کی سرگذشت کا اجمالی جائزہ
ناظرین کرام خود ملاحظہ فرمائیں کہ جو انسان اس قدر بیماریوں کا گھر ہو۔ بھلا اس کی دماغی وذہنی قوت کا توازن کس قدر برابر رہ سکتا ہے؟ جس کا دماغ خراب، جس کا حافظہ کمزور، جس کے اعصاب ضعیف، جس کو دوران سر، جس کا ہاضمہ خراب، جس کی قوت مردمی کالعدم غرضیکہ جو انسان اس قدر امراض شتی کا مجموعہ ہو وہ کیا نبوت ورسالت کے فرائض انجام دے گا؟ ان تمام مصائب وآلام کے ہوتے ہوئے جو دعوائے نبوت کرے تو اس کے دماغ کے دیوالیہ پن کا کھلا ثبوت ہے۔
کاش امت مرزائیہ اگر اسی بات پر غور کرتی تو شاید اس فتنہ ارتداد سے بیچ کر دولت اسلام سے سرفراز ہوسکتی۔ لیکن یہ اسلام اور مسلمانوں کی ضد میں آکر عقل وحواس کھو بیٹھی ہے۔ ان کو سننے کے لئے کان بھی ہیں اور دیکھنے کے لئے آنکھیں بھی ہیں۔ لیکن ان کے دل اندھے ہوچکے ہیں اور کان بہرے۔ ’’فانہا لا تعمی الابصار ولکن تعمل قلوب التی فی الصدور‘‘
مرزاغلام احمد قادیانی کی عبرتناک موت
مرزاغلام احمد قادیانی اپنی تحریرات میں ہیضے کو قہر الٰہی کا ایک نشان قرار دیتے تھے جو سرکشوں پر بطور عذاب نازل ہوتا ہے۔ چنانچہ بعض مسلمانوں مثلاً مولوی ثناء اﷲ صاحب (مرحوم) سے جو ان کے مقابلے ہوئے ان میں بھی انہوں نے یہی بددعا کی کہ جو کاذب ہو اس پر ہیضے وغیرہ کی شکل میں موت نازل ہو۔
اور آج تک قادیانی صاحبان کا ہیضہ کے متعلق یہی عقیدہ ہے۔ مگر خدا کی قدرت کہ اسی مرض ہیضہ میں خود مرزاقادیانی نے انتقال کیا اور ہیضہ بھی ایسا تیز کہ اچھے خاصے تصنیف تالیف میں مشغول تھے۔ شام کو سیر وتفریح کر کے آئے۔ رات کو بیوی صاحبہ کے ساتھ کھانا کھایا۔ یکایک دست اور قے شروع ہوئیں۔ برابر علاج کیا، چند گھنٹوں میں خاتمہ ہوگیا۔ مقام عبرت ہے۔
قادیانی حضرات دل میں شرمندہ ہیں
قادیانی صاحبان اس واقعہ سے دل میں تو شرماتے ہیں۔ لیکن زبان سے جھٹلاتے ہیں کہ مرزاقادیانی گویااسہال کی مرض میں فوت ہوئے۔ ہیضہ سے فوت نہیں ہوئے۔