السلام کو ابن اﷲ کہتے ہیں تو بڑے میاں نے اپنے تئیں ولد اﷲ کہا۔ وہ اگر تثلیث کے قائل ہیں تو انہوں نے بھی ایک پاک تثلیث ایجاد کر لی۔ بلکہ خداکی بیوی بن بیٹھے۔ پھر ایک اور عنایت کی کہ خلاف قرآن حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھادیا اور اس طریق سے گویا قرآن کی تکذیب اور انجیل کی تصدیق کی اور جمہور اہل اسلام کے عقیدہ کے خلاف مسیح کی موت کے قائل ہوگئے۔ یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ انہی کی بدولت عیسائیوں نے آپ کی جان بخشی کی اور آپ سے گالیاں کھا کر خوش ہوتے رہے اور پھر جو آپ نے محلہ خان یار سری نگر میں مدفن مسیح کی تلاش میں خاک چھانی اور ایک دنیا کو اپنے آپ پر ہنسایا۔ یا کبھی کھیسانا ہوکر حضرت مسیح کو بے حیائی سے گالیاں دیں۔ تو کیا اس سے صلیبیں ٹوٹ گئیں اور عیسائیوں پر آپ نے فتح پالی۔ آخر وہ کیا بات ہے جس پہ قادیانی حضرات کو ناز ہے۔ مرزاقادیانی کے ان خیالات پر جن کی روسے بمصداق ؎
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
وہ خود ملزم ٹھہرتے ہیں۔ اس معقولیت پر انہیں غرہ ہے۔ جو قسام ازل نے مرزائیوں کے حصہ میں بہت ہی کم کردی ہے۔ ان کا مبلغ علم چندہ خرافات کچھ الٹی منطق اور بعض سطحی باتوں کے سوا کچھ نہیں اور خدا گواہ ہے کہ کسی مرزائی دوست سے دلائل اور براہین کا نامہ اور معقولیت کا دعویٰ سن کر مارے ہنسی کے ہمارے پیٹ میں بل پڑ جاتے ہیں۔ ہم نے تو ان کی ایک بھی عقل کی بات نہ دیکھی نہ سنی ؎
ناز ہے گل کو نزاکت پہ چمن میں اے ذوق
اس نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے
ان اوراق میں ہم نے مرزاقادیانی کی تصنیفات سے ان کا مقام، ان کے عقائد، ان کی پیشین گوئیاں نکال کر جمع کر دی ہیں۔ تاکہ انہیں کے الفاظ میں ان کی سیرت ناظرین پر منکشف ہو جائے۔ امید ہے کہ مرزائی دوست بھی خوش ہوںگے۔ کیونکہ ہم صرف مرزاقادیانی کے اقوال اور ان کے الہامات پیش کرتے ہیں۔ ہم انہیں کے مبلغ ہیں۔ ان معنوں میں نہیں کہ ان کے مطبخ یا مہمان خانہ سے کھانا کھاتے ہیں۔ نہ اس حیثیت سے کہ ان کے مشن سے تنخواہ پاتے ہیں۔ بلکہ اس لئے کہ ان کے حالات وخیالات کو مفت میں شہرت دیتے ہیں اور ان کے اس الہام کو پورا کرنے میں بدل وجان معاون ہیں۔