’’میں تجھے زمین کے کناروں تک شہرت دوںگا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۳۴، خزائن ج۳ ص۴۴۲)
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
اور اسی غرض سے ہم نے مرزاقادیانی کے اقوال بے ربط بغیر طویل حاشیوں کے مرتب کر کے دنیا کے سامنے پیش کر دئیے ہیں کہ رسالہ طول نہ پکڑ جائے اور مبادا اس کی تطویل باعث پریشانی اور اس کی زولیدگی موحب کوفت ہوکر عوام کو اس دنیا ’’دار شیخ چلی‘‘ کے الہامات ودعاوی، عقائد وتعلّیات، تمرد وتفاخر اور عجائبات پر مطلع نہ ہونے دے۔ مرزائی تو کسی کی سنتے ہی نہیں۔ جو سبق انہوں نے اپنے پیرومرشد اور استاد ازلی سے پڑھا ہے۔ وہ کچھ ایسا ذہن نشین ہوچکا ہے کہ کبھی بھولنے کے نہیں۔ جو کچھ بڑے میاں فرماگئے۔ اس سے سر موتفاوت کو کفر جانتے ہیں اور محبت وعقیدت میں ایسے اندھے ہوگئے ہیں کہ بس یہی شعر ان کے ورد زبان ہے ؎
بمے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نبود رسم وراہ منزلہا
چنانچہ مرزاقادیانی کے ایک مخلص مرید عبدالمجید اس اندھی تقلید کا اظہار اپنے اس خط سے کرتے ہیں۔ جو ہم نے النجم الثاقب سے نقل کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ: ’’میرا دل حضرت مرزاصاحب کی باتوں کو قبل اس کے کہ مجھ کو علم ہو۔ مان گیا۔ کتاب اور رسالے تو بعد کو دیکھتا رہا۔ جس سے ایمان بڑھتا گیا۔ اب اگر دلیل کی رو سے مرزا صاحب کا ناحق پر ہونا کوئی ثابت کر دے تو دل سے وہ یقین جو پہلے ہوچکا ہے۔ مٹ نہیں سکتا… لہٰذا اگر آپ کی یہ نیت ہو کہ میرے خط کے جواب میں مرزا صاحب کا ناحق پر ہونا بذریعہ دلیل ثابت کر کے بھیج دیں تو فضول ہوگا۔ کیونکہ دل کو منوانا مشکل ہے۔‘‘
پس ایسے لوگوں کی حالت تو نہایت قابل رحم ہے۔ وہ کفر اور گمراہی کے تاریک گڑھوں میں پڑے ہیں اور اپنے زعم باطل میں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم فلک نشین ہیں۔ ہلاکت کی راہ پر گامزن ہیں اور عاقبت نااندیش خیال کرتے ہیں کہ ہم راہ راست پر ہیں۔ مگر وہ ایسے بیمار ہیں کہ بیکسی ان کے سرہانے کھڑی رورہی ہے اور خود موت ان کا ماتم کرتی ہے۔ لیکن وہ خوش ہیں اور اپنے مرض الموت سے واقف نہیں۔ نہیں جانتے ہیں کہ حالت کہاں تک بگڑ چکی ہے اور فی الحقیقت ان میں سے اکثر پر غفلت نہیں بلکہ غشی طاری ہے۔ ایسے لوگوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہدایت