کہ: ’’طاعون اور زلزلوں اور طوفان اور آتش فشاں پہاڑوں کے صدمات اور باہمی جنگوں سے لوگ ہلاک ہورہے ہیں اور اس قدر اسباب موت کے اس زمانہ میں جمع ہوئے ہیں اور اس شدت سے وقوع میں آتے ہیں کہ اس مجموعی حالت کی نظیر کسی پہلے زمانے میں پائی نہیں جاتی۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۹۹، خزائن ج۲۲ ص۲۰۷)
پھر اور فرماتے ہیں کہ: ’’میں نے مولویوں کا نام لے کر بلایا تھا… اور لکھا تھا کہ اگر کوئی ان میں سے مباہلہ کرے تو میں یہ دعا کروں گا ان میں سے کوئی اندھا ہو جائے اور کوئی مفلوج اور کوئی دیوانہ اور کسی کی موت سانپ کے کاٹنے سے ہوا، اور کوئی بے وقت موت سے مر جائے اور کوئی بے عزت ہو اور کسی کو مال کا نقصان پہنچے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۰۰، خزائن ج۲۲ ص۲۱۳)
جو بچ گیا وہ اپنے بخت کی یاوری پر شکر خدا کرے۔ ورنہ مرزاقادیانی نے تو وہ بازار موت گرم رکھا کہ آخر کار ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے مجبور ہوکر یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگوں کی موت اور جسمانی تکلیف کی پیشین گوئیاں شائع کرنا بند کر دو۔ ہمیں تو جناب مرزاقادیانی کی یہی امتیازی خصوصیت اور مسیح پر فضیلت کی وجہ نظر آتی ہے۔ سچ ہے ؎
زندوں کے مارنے کو مسیح زماں ہوئے
سوائے اس میدان ہلاکت کے مرزاقادیانی کو ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ لیکن لطف یہ ہے کہ وہ اپنی شکست اور ہزیمت پر اس قدر ناز کرتے ہیں کہ کیا کوئی بندہ خدا اپنی فتح ونصرت پر کرے گا۔ جہاں منہ کی کائی رسوائی ہوئی۔ جھٹ اپنی فتح کا ترانہ بلند کیا اور نہ ماننے والوں کو گالیاں دیں۔ ورنہ واقعات پر نظر کر کے کوئی صاحب فہم یہ نہیں کہہ سکتا کہ مرزاقادیانی اس مشن میں کامیاب ہوئے۔ جو بروایات اسلامی مسیح موعود کو انجام دینا تھا ان کی کوشش سے کتنے کافر مشرف باسلام ہوئے اور کس قدر اہل کتاب ان پر ایمان لے آئے۔ بلکہ آپ نے تو چالیس کروڑ مسلمانان عالم میں چند ہزار کے سوا جو آپ کے حلقہ ارادت میں آگئے۔ سب کو کافر بنادیا۔ کسر صلیب کا آپ نے بہت ڈھول پیٹا۔ مگر بے کاروبے سود کتنی، صلیبیں آپ نے توڑیں۔ کون سا گرجا مسمار کرایا۔ کتنے عیسائیوں کو مسلمان کیا۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ عیسائی مناظروں کے ہاتھ مرزاقادیانی نے ایسے مضبوط کر دئیے کہ وہ آپ کے ممنون ہیں۔ عیسائیوں پر مسلمانوں کی طرف سے جو اعتراضات تھے وہ سب کے سب آپ نے اپنی ذات شریف پر چسپاں کرالئے اور اہل کتاب کے سامنے بجز شرم اٹھانے یا چپ رہنے کے کوئی چارہ نہ رہا۔ عیسائی اگر حضرت مسیح علیہ