انگریز بہادر کی غلامی سے استعفاء
’’قریب چار سال آپ سیالکوٹ میں ملازم رہے۔ لیکن کراہت کے ساتھ آخر والد صاحب کے لکھنے پر فوراً استعفاء دے کر واپس آگئے اور اپنے والد صاحب کے حکم کے ماتحت ان کی زمینداری کے مقدمات کی پیروی میں لگ گئے۔‘‘ (سیرت مسیح موعود ص۱۵)
بچپن یاد آئے
بیان کیا مجھ سے والدہ صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت (مرزاقادیانی) صاحب سناتے تھے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ میں گھرآیا اور بغیر کسی سے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستے میں ایک مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی۔ بس پھر کیا تھا میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی۔ کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا وہ بورا نہ تھی۔ بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۲۴۴، روایت نمبر۲۴۴)
ادھر ادھر یا مرزاقادیانی کی آوارگی
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمہارے داد کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزاامام الدین بھی چلاگیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر… پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلاگیا۔ حضرت مسیح موعود شرم سے واپس گھر نہیں آئے۔ (الیٰ قولہ) والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہمیں چھوڑ کر پھر مرزاامام الدین ادھر ادھر پھرتا رہا۔ آخر اس نے چارے کے ایک قافلہ پر ڈاکہ مارا اور پکڑا گیا۔
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۴۳، روایت ۴۹)
یہ مرزاامام الدین کس قدر جرائم پیشہ اور خطرناک انسان تھا نہ جانے اس نے قادیانی ہونے والے نبی کو کس کس جہان کی سیر کرائی ہوگی؟ اور ادھر ادھر پھرانے سے کیا کیا وقائع اور حوادث پیش آئے کہ شرم وحیا کی وجہ سے چند ایام مرزاقادیانی اپنوں کے منہ نہ لگ سکے؟
دو لفظوں میں پوشیدہ ہے میری کہانی
اک لفظ محبت ہے اک لفظ جوانی