جانا تھا اور ایک بڑے زور وشور سے سلسلہ مکالمات الٰہیہ کا مجھ سے شروع ہوا۔
(کتاب البریہ ص۱۴۴تا۱۷۷ حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۱۹۵،۱۶۲)
قادیان کی وجہ تسمیہ
’’آپ کا خاندان اپنے علاقہ میں ایک معزز خاندان تھا اور اس کا سلسلۂ نسب برلاس جو امیر تیمور کا چچا تھا ملتا ہے اور جبکہ امیر تیمور نے علاقہ کش پر بھی جس پر اس کا چچا حکمراں تھا قبضہ کر لیا۔ توبرلاس خاندان خراسان میں چلا آیا اور ایکمدت تک یہیں رہا۔ لیکن دسویں صدی ہجری یا سولہویں صدی مسیحی کے آخر میں اس خاندان کا ایک ممبر مرزاہادی بیگ بعض غیر معلوم وجوہات کے باعث اس ملک کو چھوڑ کر قریباً دوسو آدمیوں سمیت ہندوستان میں آگیا اور دریائے بیاس کے قریب کے علاقہ میں اس نے اپنا ڈیرہ لگایا اور بیاس سے نومیل کے فاصلے پر ایک گاؤں بسایا اور اس کا نام اسلام پور رکھا۔ (یعنی اسلام کا شہر) چونکہ آپ نہایت ایک قابل آدمی تھے۔ دہلی کی حکومت کی طرف سے اس علاقہ کے قاضی مقرر کئے گئے اور اس عہدہ کی وجہ سے آپ کے گاؤں کا نام بجائے اسلام پور کے قاضی پور ہوگیا۔ یعنی اسلام پور جو قاضی کا مقام ہے اور بگڑتے بگڑتے اسلام پور کا نام بالکل مٹ گیا اور صرف قاضی رہ گیا۔ جو پنجابی تلفظ میں قادی بن گیا۔ اور آخر اس سے بگڑ کر قادیان ہوگیا۱؎۔‘‘ (سیرت مسیح موعود ص۲،۳)
انگریز بہادر کی نوکری
جب آپ تعلیم سے فارغ ہوئے اس وقت گورنمنٹ برطانیہ کی حکومت پنجاب میں مستحکم ہوچکی تھی۔ غدر کا پرآشوب زمانہ بھی گذر چکا تھا اور اہل ہند اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے تھے کہ اب اس گورنمنٹ کی ملازمت ہی میں تمام عزت ہے… اس لئے مختلف شریف خاندانوں کے نوجوان اس کی ملازمت میں داخل ہورہے تھے۔ ایسے حالات کے تحت اور اس بات کو معلوم کر کے مرزاقادیانی کی طبیعت زمینداری کے کاموں میں بالکل نہیں لگتی تھی۔ اپنے والد صاحب کے مشورہ سے سیالکوٹ بحصول ملازمت تشریف لے گئے اور وہاں ڈپٹی کمشنر صاحب کے دفتر میں ملازم ہوگئے۔ مگر اکثر وقت علمی مشاغل میں ہی گذرتا اور ملازمت سے فراغت کے اوقات میں یا تو آپ مطالعہ کرتے یا دوسرے لوگوںکو پڑھاتے تھے۔ (سیرت مسیح موعود ص۱۳)
۱؎ مکان ومکیں میں عجیب مناسبت ہے کہ اسلام پور بدلتے بدلتے قادیان بن گیا اور ایک برطانیہ کا جاسوس ارتقائی منازل طے کرتے کرتے نبی بن گیا۔