گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے
موت آئی ہے سر چڑھتا ہے دیوانہ ہوا ہے
مرزاقادیانی کی نسبت یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آپ مثل مسیح ہونے کے مدعی تھے اور فرماتے تھے کہ: ’’میں مسیح ناصری سے شان میں بڑھ کر ہوں۔‘‘
(حقیقت النبوۃ حصہ اوّل ص۱۸۲)
جناب مسیح کا احیائے موتیٰ پر اعجازی قدرت رکھنا مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے نزدیک مسلم ہے۔ قرآن پکار پکار کر ان کی شان میں ’’یحی الموتیٰ باذن اﷲ‘‘ کہہ رہا ہے۔ لیکن مرزاقادیانی کے فیضان سے تو کوئی بیمار بھی اچھا نہ ہوا۔ مردوں کو جلانا تو درکنار ہاں ان کی برکت سے اموات بہت واقع ہوئیں اور اس اعتبار سے ہم انہیں ایسا نبی مانتے ہیں جو ظلمت وہلاکت موت اور بربادی اپنے ساتھ لایا۔ خود بھی فرماتے ہیں کہ: ’’طاعون میرے دعویٰ کی صداقت کے لئے خدا نے بھیجی ہے۔‘‘ مسیح جو احیاء سے ثابت کرتا تھا وہ جناب مرزا اماتت سے کرتے تھے۔ آپ کی معاون ومددگار وبائے طاعون نے کتنے گھر ویران کئے اور کتنی جانیں تلف کیں۔ فرماتے ہیں: ’’حمامتہ البشریٰ میں جو کئی سال طاعون پیدا ہونے سے پہلے شائع کی تھی میں نے یہ لکھتا تھا کہ میں نے طاعون پھیلنے کے لئے دعا کی۔ سو وہ دعاء قبول ہوکر ملک میں طاعون پھیل گئی۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۲۴، خزائن ج۲۲ ص۳۳۵)
پھر آپ نے کتنوں کو ہلاک کیا اور کس قدر لوگ تھے جن کی نسبت موت کی پیشین گوئیاں کیں۔ لیکھرام مرا تو آپ کا مارا۔ ڈوئی کا کام تمام کیا تو آپ نے۔ احمد بیگ بھی اس جہاں فانی سے گذر گیا۔ تو ذات شریف کی بدولت۔ چراغ دین بھی آپ ہی کی نیم نگاہی کا شہید ہوا۔ غرض ہم کس کس کا نام لیں۔ یہ مارا وہ مارا کا ایک شور تھا کہ آپ نے بپا رکھا۔ پیسہ، اخبار کے مدیر نے بمنت کہا کہ: ’’خدا کے لئے مجھے کچھ اور دن زندہ رہنے دیجئے۔‘‘ (اشاعت السنۃ)
اور مرزاقادیانی خود فرماتے ہیں کہ: ’’میرے مقابل پر ہر ایک فرشتہ سیرت جب آیا تو وہی مارا گیا۔ جس نے مباہلہ کیا وہی تباہ ہوا۔‘‘ (سرورق حقیقت الوحی، خزائن ج۲۲ ص۲)
پھر انگریزی زبان میں الہام ہوتا ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ: ’’خدا دشمن کو ہلاک کرنے کے لئے تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ (تذکرہ ص۶۵)
واہ رے ہلاکو خاں! تیرے فیض سے تو خدا کی مخلوق کا خاتمہ ہی ہوچلا تھا۔ کیا سچ کہا ہے