باذنہ وسراجاً منیرا (احزاب:۴۵)‘‘ {اے نبی ہم نے آپ کو شہادت دینے والا، خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا اور اﷲ کی طرف اس کے حکم سے دعوت دینے والا اور چمکدار سورج بنا کر (دنیا کی رشد وہدایت) کے لئے بھیجا ہے۔}
قرآن پاک نے آنحضرتﷺ کو اس آیت میں سراج منیر سے تشبیہ دی ہے۔ اس سے ظاہر کرنا یہ مقصود ہے کہ جیسے سورج کی روشنی کے بعد کسی ستارے یا کسی چراغ کی ضرورت نہیں رہتی۔ ٹھیک اسی طرح آفتاب نبوت کے طلوع ہونے کے بعد نہ کسی اور نبی کی ضرورت رہتی ہے نہ کسی متنبی کی۔ ورنہ اس آفتاب میں نقص وکمی لازم آتی ہے۔
پس جس طرح سورج کے بعد کوئی روشنی نہیں۔ اسی طرح آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبوت ورسالت بھی نہیں۔ (بیانات علمائے ربانی ص۱۱۲؎)
تلخیص مضمون
۱… ’’وما ارسلناک الا رحمۃ للعلمین (انبیائ:۱۰۷)‘‘ {ہم نے آپ کو اہل جہان کے لئے مجسمہ رحمت بنا کر بھیجا ہے۔}
یہ آیت حکم کرتی ہے کہ آنحضرتﷺ تمام اہل عالم کے لئے رحمت ہیں اور آپ پر ایمان لانا نجات کے لئے کافی ہے۔ پس اگر آپ کے بعد کوئی اور نبی دنیا میں پیدا ہو تو آپ کی امت کے لئے آپ کی پیروی واتباع نجات کے لئے کافی نہ ہو گی بلکہ اس پر ایمان لانا ضروری ہوگا۔ جس سے لازم آتا ہے۔
(الف)… آپ کی امت آخری امت نہ رہی۔ (ب)…کہ آپ کل جہان والوں کے لئے رحمت تامہ ثابت نہ ہو سکے۔
۲… قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی کا نزول دو قسموں پر ہے:
(۱)…جو آنحضرتﷺ پر ہوا۔ (۲)…جو آپؐ سے پہلے ہوا۔
۱؎ یہ فیصلہ بہاولپور کا ایک حصہ ہے۔ جس میں ارتداد مرزا پر مجتہد العصر مولانا سید محمد انور شاہ الکاشمیریؒ شیخ الجامعہ الدیوبند مولانا سید مرتضیٰ حسن چاند پوریؒ، مولانا غلام محمد گھوٹویؒ شیخ الجامعہ العباسیہ، مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع صاحب زید مجدہ کے بیانات جمع ہیں۔ یہ کتاب اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اپنے پاس رکھے۔