کرے۔ جھوٹ بولے اور خیانت کرے۔ بدزبان ہو۔ خدا پر افتراء اور اس کے نام پر الہامات شائع کرنے والا ہو۔ جس کی پیشین گوئیاں غلط نکلیں۔ جس کے الہامات جھوٹے ثابت ہوں۔ حب دنیا رکھتا ہو۔ وعدہ خلاف اور تارک فرائض ہو۔ جس کے کلام میں اختلاف وتناقض پایا جائے۔ جو شاعر ہو اور صحیح عقائد نہ رکھتا ہو تو بیشک باب نبوت بند نہیں ہوا اور مرزاقادیانی نبی برحق ہیں اور ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ: ’’آسمان سے کئی تخت اترے۔ مگر میرا تخت سب سے اونچا بچھایا گیا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۸۹، خزائن ج۲۲ ص۹۲)
لیکن اگر یہ سب امور منافی نبوت ہیں تو مرزائی دوست ازراہ عقیدت مرزاقادیانی کو جو چاہیں مان لیں انہیں اختیار ہے۔ مگر ہم تو مان نہیں سکتے۔ سب جانتے ہیں کہ نبوت کوئی اکتسابی شے نہیں کہ انسان ریاضت وعبادت کر کے اور تقویٰ وپارسائی کی راہ پر گامزن ہوکر اسے حاصل کر لے۔ بلکہ یہ محض فضل ربی ہے۔ جس زمانہ میں خدا کسی نبی کی ضرورت سمجھتا ہے اور جسے چاہتا ہے۔ یہ عہدہ جلیلہ مرحمت فرماتا ہے۔ مگر مرزاقادیانی نرالے نبی تھے کہ بقول خود عشق رسول میں ترقی کر کے آخری نبی بن گئے۔ اس کے علاوہ نبوت براہ راست خداتعالیٰ سے ملتی ہے۔ یہ داد الٰہی ہے اور کسی بشر میں ہر چند کہ وہ نبی ہو۔ یہ قدرت نہیں کہ وہ نبی پیدا کر دے۔ مگر مرزاقادیانی کہتے ہیں اور اس سے انہیں جاہل مسلمانوں کو دھوکا دینا اور امت مرحومہ کا دل لبھانہ مطلوب ہے کہ میں مستقل نبی نہیں۔ آنحضرت کا عکس اور سایہ ہوں۔ انہیں کے فیضان سے میں نے نبوت حاصل کی۔
فرماتے ہیں کہ: ’’ایک قسم کی نبوت ختم نہیں وہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے وہ ختم نہیں۔ کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے۔ یعنی اس کا ظل ہے اور اس کے ذریعے سے ہے اور اسی کا مظہر ہے اور اسی سے فیضیاب ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۳۲۴، خزائن ج۲۳ ص۳۴۰)
نبوت کی یہ قسم نہ قرآن سے ثابت ہے نہ حدیث سے نہ آنحضرتﷺ ہی کی نبوت بخشنے کا ادّعا ہے اور نہ عقل سلیم ہی اسے قبول کرتی ہے۔ مگر مرزاقادیانی کو اس سے کیا واسطہ۔ انہیں تو بہرکیف نبی بننا تھا حقیقی نہیں۔ تو بروزی ہی سہی اور یہ منصب خود ایجاد کر لیا۔ پھر یہ بھی تو ایک راز سربستہ ہے کہ اس ظلی اور طفیلی نبی کے جی میں کیا آیا کہ مستقل نبیوں کے منہ آنے لگا اور ان سے افضل واعلیٰ اور برتر وبالا ہونے کا دعویٰ کیا۔کیسی کیسی لن ترانیاں ہانکیں۔ مگر سمجھنے والوں نے سمجھا کہ اب یہ انتہائی بلندیوں سے سر کے بل آرہے گا ؎