رسول تشریف لائے۔ ہر رسول نے اپنی ایک خاص قوم کو یاقوم کے لفظ سے خطاب فرمایا ہے۔ جس سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ساری اقوام کے لئے تشریف نہ لائے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی ایک زمانہ میں دو دو نبی بھی گذرے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس سرور دوعالم رحمتہ اللعالمینﷺ کی دعوت کو دیکھئے۔ آپ پورے قرآن کو غور وفکر سے دیکھتے جائیں۔ لیکن یہ لفظ کہیں نہیں ملے گا کہ پیغمبر اسلام علیہ السلام نے صرف عرب یا صرف اپنے خاندان یا اپنی محدود قوم کو یقوم کے لفظ سے دعوت دی ہو۔ سب سے پہلا خطاب جو آپؐ نے فرمایا وہ یایہا الناس کے جامع لفظ سے تھا۔ اس کے بعد لفظ الیکم لائے جو جمع کی ضمیر ہے۔ پھر مزید تاکید کے لئے لفظ جمیعاً کا اضافہ فرمایا گیا۔ جس سے خوب ظاہر ہوتا ہے کہ آپؐ تمام نسل انسانی ’’مایکون الیٰ یوم القیمۃ‘‘ کے لئے ہادی برحق بن کر تشریف لائے تھے۔
اب جو شخص اپنے آپ کو نسل انسانی سے خارج تصور کرے تو وہ جس کو چاہے اپنا نبی اور رسول بنالے۔ جس طرح ہمارا رب رب الناس ہے۔ ہماری کتاب ’’ہدی للناس‘‘ ہے۔ ہمارا کعبہ ’’مشبۃ اللناس‘‘ ہے۔ اسی طرح ہمارا رسول بھی ’’کافۃ للناس‘‘ ہے۔ جس طرح ہمارا رب ’’رب العلمین‘‘ ہے۔ ہماری کتاب ’’ہدی للعلمین‘‘ ہے۔ اسی طرح ہمارا نبی بھی ’’رحمۃ للعلمین‘‘ ہے۔ ’’وما ارسلناک الا رحمۃ للعلمین‘‘ پس جس طرح رب کے بعد کوئی رب نہیں۔ قرآن کے بعد کوئی کتاب نہیں۔ کعبۃ اﷲ کے بعد کوئی کعبہ نہیں۔ ٹھیک اسی طرح آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ کوئی رسول، کوئی پیغمبر نہیں ہے۔
’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین(ﷺ)‘‘
ختم نبوت کی آیت نمبر۴
’’انما انت منذرو لکل قوم ھاد (رعد:۷)‘‘ {بے شک آپ (آنحضرتﷺ) ہر قوم کیء لئے ڈرانے والے اور ہدایت کرنے والے ہیں۔}
اس آیت کریمہ کا مطلب بالکل واضح اور ظاہر ہے کہ آنحضرتﷺ ہر قوم کے لئے نبی اور رسول بن کر آئے ہیں۔ جب ہر قوم وملک کے لئے آنحضرتﷺ رسول اور نبی برحق بن کر تشریف فرماہوئے تو پھر مرزاقادیانی یا کسی اور نبی کی کیا ضرورت ہے؟
ختم نبوت کی آیت نمبر۵
’’یایہا النبی انا ارسلناک شاہداً ومبشراً ونذیراً وداعیاً الیٰ اﷲ