ختم النبوۃ کی آیت نمبر۲
’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (مائدۃ:۳)‘‘ {آج میں نے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام ہی پسند کیا۔}
اس آیت میں خداوند قدوس ارشاد فرماتے ہیں کہ دین کامل ہوگیا۔ پس نہ کسی دوسرے دین کی حاجت ہے نہ کسی دوسرے نبی کی ضرورت ہے۔ اب اگر نبیﷺ کے بعد کسی دوسرے نبی کو تسلیم کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ دین کامل نہیں ہوا! اور کسی دوسرے نبی کی ضرورت باقی رہ گئی تھی۔ پس قرآن کریم کی تکذیب لازم آئے گی۔ نتیجہ یہ ہے کہ جو شخص حضرتﷺ کے بعد کسی دوسرے نبی کو مانتا ہے وہ اس آیت کو جھٹلاتا ہے۔ بایں وجہ مرتد ہو جاتا ہے۔
(بیانات علمائے ربانی ص۱۱)
اس کے علاوہ تکمیل کے بعدکسی چیز پر اضافہ کرنا دو صورتوں سے خالی نہ ہوگا۔
۱… زیبائش۔ ۲… بدنمائی۔
اگر صورت حال اوّل ہے تو وہ شے ناقص تھی۔ کیونکہ محتاج زیبائش نکلی۔ لہٰذا مرزاقادیانی سے یہ سوال ہے کہ مرزاقادیانی جو کچھ لائے ہیں وہ دین اسلام اور قرآن میں ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو یہ تحصیل حاصل ہے جو لایعنی ہونے کے علاوہ محال بھی ہے اور اگر وہ احکام دین اسلام اور قرآن میں موجود نہ تھے تو پھر قرآن اور دین اسلام ناقص ثابت ہوئے جو اس اعلان باری عزاسمہ کے خلاف بلکہ مکذب ہے۔
پس ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی کی لائی ہوئی شریعت اسلام کے لئے ایک بدنما چیز ہے۔
ختم نبوت کی آیت نمبر۳
’’قل یایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا الذی لہ ملک السمٰوٰت والارض (اعراف:۱۵۸)‘‘ {(اے) محمدؐ آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہارے تمام لوگوں کی طرف اﷲ کا رسول ہوں وہ اﷲ جس کے لئے ملک ہے آسمانوں اور زمینوں کا۔}
پس جو شخص حضرت محمدﷺ کی بعثت اور قیامت کے درمیان کسی دوسرے نبی کو تسلیم کرے۔ وہ اس آیت کو جھٹلاتا ہے۔ لہٰذا مرتد ہو جاتا ہے۔ قریب قریب دنیا میں جس قدر نبی اور