جیسا کہ اوپر ابن کثیر سے نقل کیا جاچکا ہے۔ شیخنا سید محمود آلوسیؒ بھی وہی فرمارہے ہیں۔ یہ بات صاف کر دی گئی ہے کہ خاتم النبیین سے مطلقاً انبیاء کا اختتام بتلانا منظور ہے۔ اس میں کسی قسم کی تخصیص یا استثناء نہیں ہے۔
تفسیر خازن
تفسیر خازن اہل علم کے نزدیک ایک مشہور ومستند کتاب ہے۔ اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’خاتم النبیین ختم اﷲ بہ النبوۃ فلا نبوۃ بعدہ ای ولا معہ (خازن ج۳ ص۳۷۰)‘‘ خاتم النبیین یعنی اﷲ تعالیٰ نے آپ پر نبوت ختم کر دی۔ پس نہ آپ کے بعد کوئی نبوت ہے اور نہ آپ کے ساتھ۔
تفسیر مدارک التنزیل میں ہے
علامہ نفسیؒ نے اپنی مستند ومعتبر تفسیر مدارک التنزیل میں لکھا ہے کہ: ’’خاتم النبیین بفتح التاء (عاصم) بمعنی الطابع ای اٰخرہم یعنی لا ینباء احد بعدہ وعیسیٰ علیہ السلام ممن نبیٔ قبلہ وغیرہ بکسر التاء بمعنی الطابع وفاعل الختم وتقویہ قرأۃ ابن مسعودؓ (مدار برھاشیہ خاذن ج۳ ص۳۷۰، بحوالہ ختم النبوۃ فی القرآن ص۷۰)‘‘
خاتم النبیین عاصمؒ کی قرأت میں بفتح التاء بمعنی مہر جس سے مراد آخر ہے۔ یعنی آپ کے بعد کوئی شخص نبی نہ بنایا جائے گا اور عیسیٰ علیہ السلام آپ سے پہلے نبی بنائے گئے تھے۔ (اس لئے ان کے نزول پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا اور وہ علاوہ عاصم کے سب قراء کے نزدیک بکسر التاء بمعنی مہر بند) کرنے والا اور ختم کرنے والا اور اسی معنی کی تائید کرتی ہے۔ عبداﷲ بن مسعودؓ کی قرأت۔
اس کے علاوہ اس مسئلہ کو علامہ زرقانیؒ نے (مواہب لدنیہ ج۵ ص۲۶۷) میں اور علامہ احمد الشہیر بہ ملا جیون (تفسیر احمدی) میں اور قاضی عیاضؒ نے (شفا ص۳۶۲) میں (مطبوعہ بریلی) اور علامہ ابوالبقاء حنفیؒ نے (کلیات ابوالبقاء ص۳۱۹) اور ابوابراہیم بخاری نے (شرح تعرف ص۱۴،ج۱ ص۱۵) میں اس مسئلہ پر غیر معمولی علمی بحثیں کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی شخص کسی وقت کسی جگہ کبھی بھی کسی قسم کا نبی اور رسول نہیں بن سکتا اور نہ کسی نئے نبی ورسول کی حاجت ہے۔ قرآن آچکا، دین پورا ہوچکا۔