رسول ہیں اور خاتم النبییین۔ یعنی وہ شخص جس نے نبوت کو ختم کر دیا اور اس پر مہر لگادی۔ پس وہ آپ کے بعد کسی کے لئے نہ کھولی جائے گی۔ قیامت کے قائم ہونے تک۔
یہی مضمون حافظ عماد الدینؒ نے اپنی مستند ترین تفسیر ابن کثیر کے ج۸ ص۸۹،۹۱ اور جلالین ص۳۵۵ اور درمنثور ج۵ ص۲۰۴ پر پوری تفصیل سے بیان فرمایا ہے جو ارباب علم وفضل کے لئے قابل دید ہے۔
تفسیر کشاف میں ہے
’’خاتم بفتح التاء بمعنی الطابع وبکسرہا بمعنی الطابع وفاعل الختم وتقویہ قراۃ عبد اﷲ بن مسعودؓ ولکن نبینًا ختم النبیین فان قلت کیف کان اٰخر الانبیاء وعیسیٰ علیہ السلام ینزل فی اٰخر الزمان قلت معنی کونہﷺ اٰخر الانبیاء انہ لا ینباء احد بعدہ وعیسیٰ ممن نبی قبلہ (کشاف مصری ج۲ ص۲۱۵)‘‘ خاتم بفتح التاء بمعنی آلہ مہر اور بکسر التاء بمعنی مہر کرنے والا، ختم کرنے والا اور اسی (ختم کرنے والا) معنی کی تقویت کرتی ہے۔ عبداﷲ بن مسعودؓ کی قراۃ ’’ولکن نبینًا ختم النبیین‘‘ پس اگر آپ یہ کہیں کہ آپ آخر الانبیاء کس طرح ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام آخرزمانہ میں آسمان سے اتریں گے تو ہم یہ کہیں گے کہ آپ کے آخرالانبیاء ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی شخص نبی نہ بنایا جائے گا۔ (تو اب نزول عیسیٰ پر کچھ اعتراض نہیںہوسکتا) کیونکہ عیسیٰ ان لوگوں میں سے ہیں جو آپ سے پہلے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں۔
تفسیر کبیر میں ہے
امام المنقول والمعقول امام رازیؒ نے اپنے مخصوص انداز میں اپنی تفسیر کبیر کے ج۶ ص۶۱۷ پر اس مسئلہ پر خوب شرح وبسط کے ساتھ سیر حاصل بحث کی ہے جو قابل دید ہے۔
تفسیر روح المعانی
سید محمود آلوسی بغدادیؒ نے اپنی مشہور ومستند تفسیر روح المعانی میں آیت مذکورہ کی تفسیر نہایت شرح وبسط کے ساتھ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’والمراد بالنبی ما ھوا عم من الرسول فیلزم من کونہﷺ خاتم النبیین کونہ خاتم المرسلین (روح المعانی ج۷ ص۶)‘‘ اور نبی سے مراد وہ ہے جو رسول سے عام ہے۔ پس آپ کے خاتم النبیین ہونے سے خاتم المرسلین ہونا بھی لازم ہوگا۔