ابن کثیر میں ابوہریرہؓ سے روایت ہے
(ابن کثیر ج۸ ص۴۸) میں تبخریج ابن ابی حاتم حضرت ابوہریرہؓ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ: ’’انا اوّل النبیین فی الخلق واٰخرہم فی البعث (حاشیہ فی البیان)‘‘ میں پیدائش میں تمام انبیاء علیہم السلام سے پہلے تھا اور بعثت میں سب سے آخر۔
مذکورہ بالا تفسیر مندرجہ ذیل اصحاب رسولﷺ سے منقول ہے۔ قتاوہؓ، حضرت عبداﷲ ابن مسعودؓ،۔ حضرت حسنؓ، عائشہ صدیقہؓ، مغیرہؓ ابن شعبہؓ، حضرت جعفرؓ، حضرت ابوسعید خدریؓ، حضرت ابولطفیلؓ، حضرت ابی ہریرہؓ، حضرت انسؓ، حضرت عفان ابن مسلمؓ، حضرت ابومعاویہؓ، حضرت جبیر ابن مطعمؓ، حضرت عبداﷲ ابن عمرؓ، حضرت ابی ابن کعبؓ، حضرت حذیفہؓ، حضرت ثوبانؓ، حضرت عبادہ ابن الصامتؓ، حضرت عبداﷲ بن عباسؓ، حضرت عطاء ابن یسارؓ، حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ، حضرت عرباض بن ساریہؓ، حضرت عقبہ بن عامرؓ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ، حضرت فاروق اعظمؓ، وغیرہم من اصحاب رسولﷺ میں قریب چونسٹھ صحابہؓ سے بھی ختم نبوت کے وہی معنی بالفاظ مختلفہ منقول اور ثابت ہیں۔ یعنی آنحضرتﷺ آخرالنبیین ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی انسان نبی بن کر نہیں آسکتا۔ اگر قلب میں کوئی احساس اور دماغ میں سمجھنے کا کچھ مادہ ہے تو کوئی مسلمان بلکہ کوئی منصف مزاج کافر بھی ان چونسٹھ حضرات کی شہادتوں کے بعد ہمارے دعویٰ کے ثبوت میں شک وشبہ نہیں کرسکتا۔ ’’ان فی ذلک لعبرۃ لا ولی الابصار‘‘ (ختم نبوت فی القرآن ص۶۳)
آیت مذکورہ کی تفسیر ائمہ تفسیر کے اقوال سے
خداوند علیم وخبیر ہی کو معلوم ہے کہ کتنے متقدمین اور متاخرین بڑے اور چھوٹے علماء وصلحاء نے اس وقت تک تفسیر میں کتابیں لکھی ہیں اور کتنی موجود ہیں۔ تفاسیر کے ان غیرمحدود ذخائر سے صرف چند مشہور ومعتبر تفاسیر کے حوالے اور مفسرین کے اقوال ہدیہ ناظرین ہیں۔ تاکہ اندازہ کیا جاسکے کہ جن بزرگان دین نے اپنی تمام عمر کو اسی میدان کی سیاحت میں ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے اس آیت کریمہ کی مراد کیا سمجھی ہے اور اس کی کیا تفسیر کی ہے۔
امام المفسرین ابو جعفر ابن جریر طبری کی تفسیر
’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین الذی ختم النبوۃ فطبع علیہا فلا تفتح لاحد بعدہ الیٰ قیام الساعۃ (ابن جریر ج۲۲ ص۱۱)‘‘ لیکن آپ اﷲ کے