گھڑتے ہیں۔ علامہ ابوالبقاء نے پہلے ہی سے ان کے لئے رد تیار کر رکھا ہے۔ ’’فاعتبروایا اولی الابصار‘‘
منتہی الارب
اس میں لفظ خاتم کے متعلق لکھا ہے۔ خاتم کصاحب مہر انگشتری اور آخر ہر چیزے وپایان آن وآخر قوم وخاتم بالفتح مثلہ ومحمدﷺ خاتم الانبیاء علیہم السلام اجمعین!
صراح میں ہے
’’خاتمۃ الشی اٰخرہ ومحمد خاتم الانبیاء بالفتح صلوٰۃ اﷲ علیہم اجمعین‘‘ خاتمہ سے کے معنی آخر شے کے ہیں اور اسی معنی میں محمدﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔
لغت عرب کے غیر محدود دفتر میں سے یہ چند اقوال ائمہ لغت اور بطور مشتے نمونہ از خروارے پیش کئے گئے ہیں۔ جن سے انشاء اﷲ تعالیٰ ناظرین کو یقین ہوگیا ہوگا کہ ازروئے لغت آیت مذکورہ میں خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتے اور لفظ خاتم کے معنی آیت میں آخر اور ختم کرنے والے کے علاوہ ہرگز مراد نہیں بن سکتے۔
آیت مذکورہ کی تفسیر صحابہؓ وتابعینؒ سے
ظاہر ہے کہ اس کا استیعاب کسی کی قدرت میں نہیں۔ اس لئے اقوال صحابہؓ وتابعینؒ میں سے بقدر ضرورت معدودے چند ہدیہ ناظرین کئے جاتے ہیں۔ جن سے ان کو یہ اندازہ ہو سکے گا کہ امت کے ان اسلاف نے اس آیت کے کیا معنی سمجھے ہیں۔ جنہوں نے یہ سبق اس استاد سے پڑھا ہے۔ جس کا استاد بلاواسطہ خدائے قدوس ہے۔
حضرت قتاوہؓ کی تفسیر
امام ابوجعفر ابن جریر طبریؒ اپنی عظیم الشان تفسیر میں حضرت قتادہؓ سے خاتم النبیین کی تفسیر میں روایت فرماتے ہیں۔ (جو بالاختصار درج ذیل ہے)
’’عن قتاوہؓ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ای آخرہم (ابن جریر ج۲۲ ص۱۱)‘‘ حضرت قتاوہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت کی تفسیر میں فرمایا اور لیکن آپﷺ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخر النبیین ہیں۔
نیز حضرت قتاوہؓ کا یہ قول شیخ جلال الدین سیوطیؒ نے تفسیر درمنثور میں عبدالرزاق اور عبدالنبی حمید اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم سے بھی نقل کیا ہے۔ (درمنثور ج۵ ص۲۰۴)