صحاح العربیہ للجوہری
جس کی شہرت محتاج بیان نہیں۔ اس کی عبارت یہ ہے: ’’والخاتم والخاتم بکسر التاء وفتحہا والخیتام والخاتام کلہ بمعنی والجمع الخواتیم وخاتمۃ الشیٔ اٰخرہ ومحمدﷺ وخاتم الانبیاء علیہم السلام‘‘ خاتم اور خاتم ت کے زیر اور زبر دونوں سے اور ایسے ہی خیتام اور خاتام سب کے معنی ایک ہیں اور جمع خواتیم آتی ہے اور خاتمہ کے معنی آخر کے ہیں اور اسی معنی میں حضرت محمدﷺ کو خاتم الانبیاء کہا جاتا ہے۔ اس میں بھی یہ تصریح کر دی گئی ہے کہ خاتم اور خاتم بالکسر والفتح دونوں کے ایک معنی ہیں۔ یعنی آخر قوم!
کلیات ابوالبقاء
یہ لغت عرب کی مشہور ومعتمد کتاب ہے۔ اس میں مسئلہ زیربحث کو سب سے زیادہ واضح کردیا ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’وتسمیۃ نبینا خاتم الانبیاء لان الخاتم اٰخر القوم قال اﷲ تعالیٰ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (کلیات ابوالبقاء ص۳۱۹)‘‘
اور ہمارے نبی کریمؐ کا نام خاتم الانبیاء اس لئے رکھاگیا کہ خاتم آخر قوم کو کہتے ہیں اور اسی معنی میں خداتعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے متعلق فرمایا کہ وہ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ لیکن اﷲ کے رسول اور آخر سب نبیوں کے ہیں۔
اس میں نہایت صاف کردیا گیا ہے کہ آپ کے خاتم الانبیاء اور خاتم النبیین کے نام رکھنے کی وجہ ہی یہ ہے کہ خاتم آخر قوم کو کہا جاتا ہے اور آپ آخر النبیین ہیں۔ نیز ابوالبقاء نے اس کے بعد کہا ہے کہ: ’’ونفی الاعم یستلزم نفی الاخص‘‘ اور عام کی نفی خاص کی نفی کو مستلزم ہے۔
جس کی غرض یہ ہے کہ نبی عام ہے۔ تشریعی ہو یا غیرتشریعی اور رسول خاص تشریعی کے لئے بولا جاتا ہے اور آیت میں جب کہ عام نبی کی نفی کر دی گئی تو خاص یعنی رسول کی بھی نفی ہونا لازمی ہے۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ اس آیت سے تشریعی اور غیرتشریعی ہر قسم کے نبی کا اختتام اور آپ کے کے بعد پیدا ہونے کی نفی ثابت ہوتی ہے۔ جو لوگ آج آیت میں تشریعی اور غیرتشریعی کی تقسیم