کے ہوتے ہیں۔ ولہٰذا چونکہ آیت مذکورہ میں خاتم کی اضافت جماعت نبیین کی طرف ہے۔ اس کے معنی آخر النبیین اور نبیوں کو ختم کرنے والے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتے۔ اس قاعدہ کی تائید، تاج العروس شرح قاموس سے بھی ہوتی ہے۔ وھو ہذا!
تاج العروس
شرح قاموس للعلامۃ الزبیدیؒ میں لحیانی سے نقل کیا ہے۔ ’’ومن اسمائہ ﷺ الخاتم والخاتم وھو الذی ختم النبوۃ بمجئیہ‘‘ {اور آنحضرتﷺ کے اسماء مبارک میں سے الخاتم بالکسر اور الخاتم بالفتح بھی ہے اور خاتم وہ شخص ہے۔ جس نے اپنی تشریف آوری سے نبوت کو ختم کر دیا ہو۔}
مجمع البحار
جس میں لغات حدیث کو معتمد طریق سے جمع کیاگیا ہے۔ اس کی عبارت درج ذیل ہے۔ ’’الخاتم والخاتم من اسمائہﷺ بالفتح اسم ای اٰخرہم وبالکسر اسم فاعل (مجمع البحار ج۲ ص۱۵)‘‘
خاتم بالکسر وبالفتح نبی کریمﷺ کے ناموں میں سے ہے۔ بالفتح اسم ہے۔ جس کے معنی آخر کے ہیں اور بالکسر اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ جس کے معنی تمام کرنے والے کے ہیں۔
نیز (مجمع البحار ج۳ ص۱۵) میں درج ہے: ’’خاتم النبوۃ بکسر التاء ای فاعل الختم وھو الاتمام وبفتحھا بمعنی الطابع ای شیٔ یدل علیٰ انہ لا نبی بعدہ‘‘ خاتم النبوۃ بکسرالتاء یعنی تمام کرنے والا اور بفتح تا بمعنی مہر یعنی وہ شے جو اس پر دلالت کرے کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں۔
قاموس میں ہے: ’’والخاتم اٰخر القوم کالخاتم ومنہ قولہ تعالیٰ وخاتم النبیین ای اٰخرہم‘‘ اور خاتم بالکسر اور خاتم بالفتح قوم میں سب سے آخر کو کہا جاتا ہے اور اسی معنی میں ہے۔ اﷲتعالیٰ کا ارشاد وخاتم النبیین ای آخر النبیین۔
اس میں بھی لفظ قوم بڑھا کر قاعدہ مذکورہ کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ نیز مسئلہ زیر بحث کا سب سے زیادہ وضاحت کے ساتھ فیصلہ کر دیا ہے۔ ان براہین قاطعہ سے کوئی کس طرح انحراف کر سکتا ہے؟ ’’الا بوجہ لیس فیہ حیائ‘‘